سنن النسائي - حدیث 3972

كِتَابُ المُحَارَبَة كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3972

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان ناحق خون بہانا حرام ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہت عالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ جب وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں، ہمارا ذبح شدہ جانور کھائیں اور ماری طرح نماز پڑھیں تو ہم پر ان کے جان و مال حرام وہ جاتے ہیں، الا یہ کہ ان پر اسلام کا کوئی حق بنتا ہو۔ ان کو وہ حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل وہتے ہیں اور ان پر وہ فرائض لاگو ہوں گے جو مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) کفار سے لڑائی لڑنا ضروری نہیں بلکہ یہ حالات کے تقاضے پر موقوف ہے۔ اگر کفار مسلمانوں کے فرماں بردار ہو کر رہیں اور عائد کردہ ٹیکس ادا کریں تو ان سے لڑنے کی بجائے ان ہیں بطور ذمی رکھا جائے۔ اگر کوئی غیر اسلامی حکومت قائم وہ تو ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر صلح کے ساتھ بھی رہا جا سکتا ہے۔ (۲) حدیث سے قبلے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر نماز میں اپنا رخ قبلے یک جانب نہیں کرے گا اس کی نماز نہیں ہو گی۔ (دیکھئے، حدیث: ۳۰۹۲۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل کتاب الجہاد میں ملاحظہ فرمائیں۔) (۱) کفار سے لڑائی لڑنا ضروری نہیں بلکہ یہ حالات کے تقاضے پر موقوف ہے۔ اگر کفار مسلمانوں کے فرماں بردار ہو کر رہیں اور عائد کردہ ٹیکس ادا کریں تو ان سے لڑنے کی بجائے ان ہیں بطور ذمی رکھا جائے۔ اگر کوئی غیر اسلامی حکومت قائم وہ تو ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر صلح کے ساتھ بھی رہا جا سکتا ہے۔ (۲) حدیث سے قبلے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر نماز میں اپنا رخ قبلے یک جانب نہیں کرے گا اس کی نماز نہیں ہو گی۔ (دیکھئے، حدیث: ۳۰۹۲۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل کتاب الجہاد میں ملاحظہ فرمائیں۔)