سنن النسائي - حدیث 3963

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ الْأَلْفَاظِ الْمَأْثُورَةِ فِي الْمُزَارَعَةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ كَانَتْ الْمَزَارِعُ تُكْرَى عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لِرَبِّ الْأَرْضِ مَا عَلَى رَبِيعِ السَّاقِي مِنْ الزَّرْعِ وَطَائِفَةً مِنْ التِّبْنِ لَا أَدْرِي كَمْ هُوَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3963

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل مزارعت (بٹائی) کے بارے میں منقول الفاظ کے اختلاف کا بیان حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے دور مبارک میںزمینیں کرائے پر دی جاتی تھیں۔ اس شرط پر کہ پانی کے نالوں کے قریب اگنے والی فصل اور کچھ معین توڑی‘ نہ معلوم وہ کتنی ہوتی تھی‘ مالک زمین کو ملے گی (اور باقی مزارع کو)۔
تشریح : روایت مختصر ہے‘ یعنی آپ نے بٹائی کی اس صورت سے منع فرمایا کہ کیونکہ اس میں ناجائز شرط ہے کہ اچھی زمین کی فصل مالک لے جائے گا اور ردی زمین کی فصل مزارع کو ملے گی‘ نیز مالک تو معین مقدار میں توڑی لے جائے گا‘ مزارع کو اتنی بچے یانہ بچے یا بالکل ہی نہ بچے۔ یہ مزارع پر ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے اس قسم کی خاص صورت سے منع فرمادیا ہے نہ کہ عام بٹائی سے۔ (اس حدثی کا دوسرا مفہوم حدیث: ۳۹۳۹ کے فائدے دیکھیے۔) روایت مختصر ہے‘ یعنی آپ نے بٹائی کی اس صورت سے منع فرمایا کہ کیونکہ اس میں ناجائز شرط ہے کہ اچھی زمین کی فصل مالک لے جائے گا اور ردی زمین کی فصل مزارع کو ملے گی‘ نیز مالک تو معین مقدار میں توڑی لے جائے گا‘ مزارع کو اتنی بچے یانہ بچے یا بالکل ہی نہ بچے۔ یہ مزارع پر ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے اس قسم کی خاص صورت سے منع فرمادیا ہے نہ کہ عام بٹائی سے۔ (اس حدثی کا دوسرا مفہوم حدیث: ۳۹۳۹ کے فائدے دیکھیے۔)