سنن النسائي - حدیث 3959

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، ضعيف أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ إِنَّمَا كَانَا رَجُلَيْنِ اقْتَتَلَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنُكُمْ فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ فَسَمِعَ قَوْلَهُ لَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَقَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كِتَابَةُ مُزَارَعَةٍ عَلَى أَنَّ الْبَذْرَ وَالنَّفَقَةَ عَلَى صَاحِبِ الْأَرْضِ وَلِلْمُزَارِعِ رُبُعُ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهَا هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلَانُ بْنُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانٍ إِنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ الَّتِي بِمَوْضِعِ كَذَا فِي مَدِينَةِ كَذَا مُزَارَعَةً وَهِيَ الْأَرْضُ الَّتِي تُعْرَفُ بِكَذَا وَتَجْمَعُهَا حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ يُحِيطُ بِهَا كُلِّهَا وَأَحَدُ تِلْكَ الْحُدُودِ بِأَسْرِهِ لَزِيقُ كَذَا وَالثَّانِي وَالثَّالِثُ وَالرَّابِعُ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِحُدُودِهَا الْمُحِيطَةِ بِهَا وَجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَشِرْبِهَا وَأَنْهَارِهَا وَسَوَاقِيهَا أَرْضًا بَيْضَاءَ فَارِغَةً لَا شَيْءَ فِيهَا مِنْ غَرْسٍ وَلَا زَرْعٍ سَنَةً تَامَّةً أَوَّلُهَا مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا وَآخِرُهَا انْسِلَاخُ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَلَى أَنْ أَزْرَعَ جَمِيعَ هَذِهِ الْأَرْضِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ الْمَوْصُوفُ مَوْضِعُهَا فِيهِ هَذِهِ السَّنَةَ الْمُؤَقَّتَةَ فِيهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا كُلَّ مَا أَرَدْتُ وَبَدَا لِي أَنْ أَزْرَعَ فِيهَا مِنْ حِنْطَةٍ وَشَعِيرٍ وَسَمَاسِمَ وَأُرْزٍ وَأَقْطَانٍ وَرِطَابٍ وَبَاقِلَّا وَحِمَّصٍ وَلُوبْيَا وَعَدَسٍ وَمَقَاثِي وَمَبَاطِيخَ وَجَزَرٍ وَشَلْجَمٍ وَفُجْلٍ وَبَصَلٍ وَثُومٍ وَبُقُولٍ وَرَيَاحِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ الْغَلَّاتِ شِتَاءً وَصَيْفًا بِبُزُورِكَ وَبَذْرِكَ وَجَمِيعُهُ عَلَيْكَ دُونِي عَلَى أَنْ أَتَوَلَّى ذَلِكَ بِيَدِي وَبِمَنْ أَرَدْتُ مِنْ أَعْوَانِي وَأُجَرَائِي وَبَقَرِي وَأَدَوَاتِي وَإِلَى زِرَاعَةِ ذَلِكَ وَعِمَارَتِهِ وَالْعَمَلِ بِمَا فِيهِ نَمَاؤُهُ وَمَصْلَحَتُهُ وَكِرَابُ أَرْضِهِ وَتَنْقِيَةُ حَشِيشِهَا وَسَقْيِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى سَقْيِهِ مِمَّا زُرِعَ وَتَسْمِيدِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى تَسْمِيدِهِ وَحَفْرِ سَوَاقِيهِ وَأَنْهَارِهِ وَاجْتِنَاءِ مَا يُجْتَنَى مِنْهُ وَالْقِيَامِ بِحَصَادِ مَا يُحْصَدُ مِنْهُ وَجَمْعِهِ وَدِيَاسَةِ مَا يُدَاسُ مِنْهُ وَتَذْرِيَتِهِ بِنَفَقَتِكَ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ دُونِي وَأَعْمَلَ فِيهِ كُلِّهِ بِيَدِي وَأَعْوَانِي دُونَكَ عَلَى أَنَّ لَكَ مِنْ جَمِيعِ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَلَكَ ثَلَاثَةُ أَرْبَاعِهِ بِحَظِّ أَرْضِكَ وَشِرْبِكَ وَبَذْرِكَ وَنَفَقَاتِكَ وَلِي الرُّبُعُ الْبَاقِي مِنْ جَمِيعِ ذَلِكَ بِزِرَاعَتِي وَعَمَلِي وَقِيَامِي عَلَى ذَلِكَ بِيَدِي وَأَعْوَانِي وَدَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَمَرَافِقِهَا وَقَبَضْتُ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنْكَ يَوْمَ كَذَا مِنْ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا فَصَارَ جَمِيعُ ذَلِكَ فِي يَدِي لَكَ لَا مِلْكَ لِي فِي شَيْءٍ مِنْهُ وَلَا دَعْوَى وَلَا طَلِبَةَ إِلَّا هَذِهِ الْمُزَارَعَةَ الْمَوْصُوفَةَ فِي هَذَا الْكِتَابِ فِي هَذِهِ السَّنَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ فَإِذَا انْقَضَتْ فَذَلِكَ كُلُّهُ مَرْدُودٌ إِلَيْكَ وَإِلَى يَدِكَ وَلَكَ أَنْ تُخْرِجَنِي بَعْدَ انْقِضَائِهَا مِنْهَا وَتُخْرِجَهَا مِنْ يَدِي وَيَدِ كُلِّ مَنْ صَارَتْ لَهُ فِيهَا يَدٌ بِسَبَبِي أَقَرَّ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَكُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ نُسْخَتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3959

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے‘ اللہ کی قسم! اس حدیث (یعنی بٹائی سے متعلقہ حدیث) کو میں ان سے زیادہ جانتا ہوں۔ بات یہ تھی کہ دو آدمی (مالک زمین اور مزارع) جھگڑ پڑے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر تمہاا یہ حال ہے تو زمینیں کرائے پر مت دو۔‘‘ حضرت رافع نے صرف اتنی بات سنی کہ ’’زمینیں کرائے پر مت دو۔‘‘ ابوعبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ مزارعت کا معاملہ لکھنا اس شرط پر ہو کہ بیج اور دیگر اخراجات‘ زمین کے مالک کے ذمے ہوں اور مزارع کے لیے پیداوار کا چوتھا حصہ ہو۔ یہ وہ تحریر ہے جو فلاں بن فلاں فلاں بن فلاں بن فلاں کے لیے اپنی صحت اور اختیار کی حالت میں لکھی ہے۔ تو نے فلاں شہر میں فلاں جگہ واقع اپنی پوری زمین بٹائی کے طور پر میرے سپرد کردی ہے اور یہ زمین فلاں نام سے مشہور ہے اور اس کی یہ حدود اربعہ ہیں جنہوں نے اس کو گھیر رکھا ہے۔ اس کی ایک حد پوری کی پوری فلاں جگہ سے ملی ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسری‘ تیسری اور چوتھی۔ تو نے اپنی وہ تمام زمین جس کی یہاں حدود بیان کردی گئی ہیں‘ تمام حقوق سمیت میرے سپرد کردی ہے جن میں اس کے پانی کی باری‘ نہر نالے اور رہٹ وغیرہ داخل ہیں۔ یہ خالی زمین ہے جس میں نہ کوئی درخت ہے اور نہ فصل۔ مکمل سال کے لیے جس کی ابتداء فلاں سال ے فلاں مہینے سے ہوگی اور اس کا اختتام فلاں سال کے فلاں ماہ کے گزرنے پر ہوگا۔ میں اس تمام زمین کو جس کا حدوداربعہ اور مقام ومحل اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے‘ اس مقررہ سال میں اول سے آخر تک کاشت کروں گا۔ جو کچھ بھی میں مناسب سمجھوں گا‘ اس میں گندم‘ جو‘ تل‘ چاول‘ روئی(کپاس)‘ چارہ‘ باقلا‘ چنے‘ لوبیا‘ مسور‘ ککڑیاں‘ تربوز‘ گاجریں‘ شلجم‘ مولی‘ پیام‘ لہسن اور دیگر سبزیاں‘ پھول اور سردیوں‘ گرمیوں کے تمام غلے کاشت کروں گا۔ ان کے بیج وغیرہ کے اخراجات تیرے ذمے ہوں گے مجھ پر نہیں‘ خواہ یہ کام میں خود سرانجام دوں یا اپنے ساتھیوں‘ نوکروں سے کرواؤں۔ بیل اور کاشت کاری کے آلات مہیا کرنا میری ذمہ داری ہوگی۔ میں کاشت بھی کروں گا‘ زمین کو آباد بھی کروں گا اور ہر ہو کام کروں گا جس سے فصل کی پرورش اور اصلاح ہو۔ زمین میں ہل چلاؤں گا‘ گھاس پھوس صاف کروں گا اور کاشت شدہ رقبے میں جسے پانی لگانے کی ضرورت ہوگی‘ وہ بھی ڈالوں گا۔ پانی کے نالے‘ نالیاں کھودوں گا اور پھل توڑنے کے وقت پھل توڑوں گا۔ اور کٹائی کے وقت کٹائی کروں گا۔ پھر فصل کو اکٹھا کروں گا اور اس کی گہائی کروں گا اور صفائی واڑائی کروں گا لیکن ان کاموں کے تمام اخراجات تیرے ذمے ہوں گے‘ میرے ذمے نہیں۔ میں یہ تمام کام بذات خود یا اپنے ساتھیوں کی مدد سے کروں گا۔ تیرے ذمے کچھ نہ ہوگا۔ اور پھر اس مقررہ مدت میں جو اس تحریر میں بیان کردی گئی ہے‘ اول سے آخر تک اللہ تعالیٰ جو پیداوار فرمائے گا‘ اس تمام میں سے تجھے تیری زمین‘ تیرے پانی‘ تیرے بیج اور دیگر اخراجات کرنے کی وجہ سے تین چوتھائی حصہ ملے گا اور مجھے اپنی کاشت کاری‘ کام کاج‘ اپنے ہاتھوں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان تمام انتظامات کے عوض ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ تو نے اپنی وہ تمام زمین جس کی حدود اس تحریر میں بیان کردی گئی ہیں‘ ا س کے تمام حقوق ومنافع سمیت میرے سپرد کردی ہے اور میں نے اس تمام زمین پر فلاں سال کے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قبضہ کرلیا ہے۔ اب یہ تمام زمین میرے قبضہ میں ہے‘ البتہ میں اس کے کسی حصے کا بھی مالک نہیں۔ نہ میرا کوئی دعویٰ یا کوئی مطالبہ ہوگا سوائے کاشت کاری کے جو فلاں سال کے لیے اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے۔ جب یہ سال پورا ہوجائے گا تو یہ تمام تجھے واپس کردی جائے گی۔ تیرے قبضے میں ہو گی اور تجھے حق ہوگا کہ یہ مدت ختم ہونے کے بعد مجھے اس زمین سے نکال دے اور اس زمین کو میرے قبضے سے یا ہر اس شخص کے قبضے سے جسے میری وجہ سے قبضہ حاصل ہوا ہو‘ نکال لے۔ فلاں (مالک زمین) اور فلاں (مزارع) ان تمام باتوں کا اقرار کرتے ہیں‘ نیز اس تحریر کے دونسخے (ایک زمین کے مالک کے لیے دوسرا مزارع کے لیے) تیار کیے گئے ہیں۔
تشریح : (۱) گویا اس دور کی مروجہ بٹائی کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تنازعات کا باعث تھی۔ اور آپ جھگڑے کو سخت ناپسند فرماتے تھے‘ لہٰدا اگر بٹائی کی ایسی صورت ہو جو تنازع اور جھگڑے کا سبب نہ بنے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آج کل بٹائی کا رواج ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ نے بٹائی کے بارے میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت کو مختلف اسانید کے ساتھ تفصیل سے نقل فرمایا ہے تاکہ تمام جزئیات معلوم ہوجائیں۔ ان تمام روایات کو پڑھنے سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو کتاب المزارعۃ کے شروع میں ہے‘ نیز احادیث: ۳۸۹۲‘ ۳۸۹۳‘ ۳۸۹۸‘ ۳۹۰۴‘ ۳۹۲۱‘ ۳۹۲۵‘ ۳۹۳۳ اور ۳۹۴۳ میں متفرق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مختصر احادیث غلط فہمی کا موجب بنتی ہیں مگر یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ فتویٰ کی بنیاد کوئی ایک آدھ روایت نہیں بن سکتی بلکہ اس مسئلے سے متعلق تمام واردشدہ احادیث کو ملا کر نتیجہ نکالا جائے اور پھر اس کی روشنی میں مختلف روایات کو حل کیا جائے۔ (۳) سابقہ تفصیلی روایات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت جو اس باب میں مدار ہے‘ سخت اضطراب کی حامل ہے۔ سند کے لحاظ سے بھی اور متن کے لحاظ سے بھی لیکن تطبیق ممکن ہے‘ لہٰذاروایت اصلاً صحیح ہے۔ اضطراب اس وقت روایت کی صحت کے خلاف ہوتا ہے جب اس کا حل ممکن نہ ہو۔ مذکورہ بالا دستاویز اس صورت میں ہے جب بیج اور اخراجات مالک زمین کے ذمے طے لرلیے گئے ہوں اور پیداوار میں ۱:۳ کی نسبت طے کرلی گئی ہو لیکن ضروری نہیں کہ ہر بٹائی میں ایسے ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیج اور اخراجات دونوں کے ذمے ہوں اور حصہ نصف نصف ہو جیسے کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔ یا بیج اور اخراجات سب مزارع کے ذمے ہوں اور ا سکا حصہ پیداور میں مالک زمین سے زیادہ ہو۔ غرض وہ جن شرائط پر بھی اتفاق کرلیں‘ وہی معتبر ہوگی بشرطیکہ ان میں کسی ایک فریق پر ظلم یا دباؤ نہ ہو۔ (۱) گویا اس دور کی مروجہ بٹائی کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تنازعات کا باعث تھی۔ اور آپ جھگڑے کو سخت ناپسند فرماتے تھے‘ لہٰدا اگر بٹائی کی ایسی صورت ہو جو تنازع اور جھگڑے کا سبب نہ بنے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آج کل بٹائی کا رواج ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ نے بٹائی کے بارے میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت کو مختلف اسانید کے ساتھ تفصیل سے نقل فرمایا ہے تاکہ تمام جزئیات معلوم ہوجائیں۔ ان تمام روایات کو پڑھنے سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو کتاب المزارعۃ کے شروع میں ہے‘ نیز احادیث: ۳۸۹۲‘ ۳۸۹۳‘ ۳۸۹۸‘ ۳۹۰۴‘ ۳۹۲۱‘ ۳۹۲۵‘ ۳۹۳۳ اور ۳۹۴۳ میں متفرق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مختصر احادیث غلط فہمی کا موجب بنتی ہیں مگر یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ فتویٰ کی بنیاد کوئی ایک آدھ روایت نہیں بن سکتی بلکہ اس مسئلے سے متعلق تمام واردشدہ احادیث کو ملا کر نتیجہ نکالا جائے اور پھر اس کی روشنی میں مختلف روایات کو حل کیا جائے۔ (۳) سابقہ تفصیلی روایات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت جو اس باب میں مدار ہے‘ سخت اضطراب کی حامل ہے۔ سند کے لحاظ سے بھی اور متن کے لحاظ سے بھی لیکن تطبیق ممکن ہے‘ لہٰذاروایت اصلاً صحیح ہے۔ اضطراب اس وقت روایت کی صحت کے خلاف ہوتا ہے جب اس کا حل ممکن نہ ہو۔ مذکورہ بالا دستاویز اس صورت میں ہے جب بیج اور اخراجات مالک زمین کے ذمے طے لرلیے گئے ہوں اور پیداوار میں ۱:۳ کی نسبت طے کرلی گئی ہو لیکن ضروری نہیں کہ ہر بٹائی میں ایسے ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیج اور اخراجات دونوں کے ذمے ہوں اور حصہ نصف نصف ہو جیسے کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔ یا بیج اور اخراجات سب مزارع کے ذمے ہوں اور ا سکا حصہ پیداور میں مالک زمین سے زیادہ ہو۔ غرض وہ جن شرائط پر بھی اتفاق کرلیں‘ وہی معتبر ہوگی بشرطیکہ ان میں کسی ایک فریق پر ظلم یا دباؤ نہ ہو۔