كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَنَّ عُمُومَتَهُ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعُوا فَأَخْبَرُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا أَنَّهُ كَانَ صَاحِبَ مَزْرَعَةٍ يُكْرِيهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لَهُ مَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي الَّذِي يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْمَاءُ وَطَائِفَةٌ مِنْ التِّبْنِ لَا أَدْرِي كَمْ هِيَ رَوَاهُ ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ فَقَالَ عَنْ بَعْضِ عُمُومَتِهِ
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میرے چچا رسول اللہﷺ کے پاس گئے۔ پھر واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمادیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرمانے لگے: ہم قطعاً جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں زمین والا پانی کے نالوں‘ جہاں سے پانی فصل کو لگتا تھا‘ کے قریب اگنے والی فصل کے عوض یا معین توڑی وغیرہ کے عوض بٹائی پر دیتا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس (معین توڑی) کی مقدار کتنی تھی۔ (اور آپ نے اسی سے منع فرمایا ہے نہ کہ عام بٹائی سے۔)
یہ روایت ابن عوض نے حضرت نافع سے بیان کی ہے تو انہوں نے ’’عن بعض عمومتہ‘‘ کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
تشریح :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کردہ بٹائی کی صورت کو جائز سمجھتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کیونکہ ان کو نہی کا علم نہ تھا‘ بعد میں ان کو حضرت رافع بن حدیج کے بارے میں بتایا تو وہ اس سے رک گئے۔ جیسا کہ حدیث:۳۹۳۵ میں ذکر ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کردہ بٹائی کی صورت کو جائز سمجھتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کیونکہ ان کو نہی کا علم نہ تھا‘ بعد میں ان کو حضرت رافع بن حدیج کے بارے میں بتایا تو وہ اس سے رک گئے۔ جیسا کہ حدیث:۳۹۳۵ میں ذکر ہے۔