كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو خُزَيْمَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَرِيفٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَسُئِلَ رَافِعٌ بَعْدَ ذَلِكَ كَيْفَ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ قَالَ بِشَيْءٍ مِنْ الطَّعَامِ مُسَمًّى وَيُشْتَرَطُ أَنَّ لَنَا مَا تُنْبِتُ مَاذِيَانَاتُ الْأَرْضِ وَأَقْبَالُ الْجَدَاوِلِ رَوَاهُ نَافِعٌ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِيهِ
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ ابن شہاب (امام زہری) نے کہا کہ اس کے عبد حضرت رافع سے پوچھا گیا کہ اس دور میں لوگ زمین کرائے پر کیسے دیتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: یا تو معین غلے کے عوض‘ یا یہ شرط لگاتے تھے کہ فصل پانی کے نلوں کے ساتھ ساتھ یا پانی کے موہگے کے سامنے سامنے اگے گی‘ وہ ہماری ہوگی۔
یہ روایت نافع نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور اس حدیث میں نافع پر اختلاف کیا گیا ہے۔
تشریح :
(۱) ’’اختلاف کیا گیاہے۔‘‘ وہ اختلاف۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ حضرت نافع کے کئی شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان کی‘ مثلاً: موسیٰ بن عقبہ‘ ابن عون‘ ایوب‘ کثیر بن فرقد‘ عبیداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء وغیرہ۔ لیکن ان تمام شاگردوں میں سے کوئی تو اپنے استاد حضرت نافع سے یہی روایت بیان کرتے ہوئے ’’عمومتہ‘‘ کے الفاظ بیان کرتاہے‘ اور کوئی ’’بعض عمومتہ‘‘ کے‘ جب کہ کوئی ان الفاظ کے بغیر ہی یہ روایت بیان کرتا ہے۔ (۲) یہ صورتیں تو قطعاً منع ہیں کیونکہ ایسی شرائط صریح ظلم ہیں اور ان میں مزارع کا واضح طور پر نقصان ہے جسے شریعت جائز قرار نہیں دے سکتی تھی‘ البتہ زمین عام بٹائی پر دینا جائز ہے۔
(۱) ’’اختلاف کیا گیاہے۔‘‘ وہ اختلاف۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ حضرت نافع کے کئی شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان کی‘ مثلاً: موسیٰ بن عقبہ‘ ابن عون‘ ایوب‘ کثیر بن فرقد‘ عبیداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء وغیرہ۔ لیکن ان تمام شاگردوں میں سے کوئی تو اپنے استاد حضرت نافع سے یہی روایت بیان کرتے ہوئے ’’عمومتہ‘‘ کے الفاظ بیان کرتاہے‘ اور کوئی ’’بعض عمومتہ‘‘ کے‘ جب کہ کوئی ان الفاظ کے بغیر ہی یہ روایت بیان کرتا ہے۔ (۲) یہ صورتیں تو قطعاً منع ہیں کیونکہ ایسی شرائط صریح ظلم ہیں اور ان میں مزارع کا واضح طور پر نقصان ہے جسے شریعت جائز قرار نہیں دے سکتی تھی‘ البتہ زمین عام بٹائی پر دینا جائز ہے۔