كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ وَكِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ فَقَالَ حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ ذَلِكَ فَرْضُ الْأَرْضِ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ وَرَفَعَهُ كَمَا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ رَبِيعَةَ
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
حضرت حنظلہ بن قیس سے مروی ہے‘ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے خالی زمین سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: جائز ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ منع تو تب ہے جب زمین کی پیداوار کے حصے کے عوض دی جائے۔
یحییٰ بن سعید نے بھی یہ روایت حنظلہ بن قیس سے بیان کی ہے اور انہوں نے اسے مرفوع بیان کیا ہے۔ جس طرح کہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے ربیعہ سے مرفوع بیان کیا ہے۔
تشریح :
معلوم یوں ہوتا ہے کہ سونے چاندی کے عوض جائز قراردینا حضرت رافع بن خدیج کا اپنا اجتہاد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہورہا ہے ورنہ رسول اللہﷺ نے جس انداز سے بٹائی سے منع فرمایا ہے اس انداز کے مطابق سونے چاندی کے عوض بھی درست نہ ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے غرباء سے ہمدردی کے طور پر بٹائی سے روکا ہے جیسا کہ سابقہ احادیث میں صراحت ہے‘ لہٰذا سونے چاندی کے عوض بھی منع ہونا چاہیے کیونکہ یہ بھی غریب سے ہمدردی کے خلاف ہے بلکہ غریب کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے۔ (دیکھئے‘ حدیث:۳۹۲۱)
معلوم یوں ہوتا ہے کہ سونے چاندی کے عوض جائز قراردینا حضرت رافع بن خدیج کا اپنا اجتہاد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہورہا ہے ورنہ رسول اللہﷺ نے جس انداز سے بٹائی سے منع فرمایا ہے اس انداز کے مطابق سونے چاندی کے عوض بھی درست نہ ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے غرباء سے ہمدردی کے طور پر بٹائی سے روکا ہے جیسا کہ سابقہ احادیث میں صراحت ہے‘ لہٰذا سونے چاندی کے عوض بھی منع ہونا چاہیے کیونکہ یہ بھی غریب سے ہمدردی کے خلاف ہے بلکہ غریب کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے۔ (دیکھئے‘ حدیث:۳۹۲۱)