سنن النسائي - حدیث 3930

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح أَخْبَرَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالدِّينَارِ وَالْوَرِقِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَاجِرُونَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ فَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَافَقَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَلَى إِسْنَادِهِ وَخَالَفَهُ فِي لَفْظِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3930

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے راویت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض زمین کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کے دور میں لوگ اپنی زمینیں نالوں کے ساتھ ساتھ اور نالوں (موہگوں) کے سامنے اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیتے تھے۔ کبھی اس حصے کی فصل محفوظ رہتی اور دوسرے حصے کی ضائع ہوجاتی۔ کبھی دوسرے حصے کی فصل محفوظ رہتی اور اس حصے کی فصل ضائع ہوجاتی۔ اس وقت زمین کے کرائے کی یہ شکل ہی رائج تھی‘ اس لیے آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ لیکن کوئی اور معلوم اور معین چیز (رقم) مقرر کرلی جائے جن کا کوئی ضامن بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے اس (اوزاعی) کی سند میں موافقت کی ہے اور اس (اوزاعی) کے الفاظ میں ا سکی مخالفت کی ہے۔
تشریح : (۱) ’’موافقت کی ہے۔‘‘ اس سند میں موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح امام اوزاعی نے اپنی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح امام مالک بن انس نے بھی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دونوں حدیث میں کچھ فرق ہے اگرچہ الفاظ کے اس فرق کی وجہ سے حدیث کے معنی اور مفہوم میں کوئی فق یا اثر ن ہیں پڑتا۔ واللہ اعلم۔ (۲) گویا منع فرمانے کی وجہ وہ ظالمانہ شرائط تھیں جن کی بنا پر مزارع کو سراسر نقصان ہوتا تھا کہ زمین میں سے اچھے حصوں کی فصل مالک اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور ناکارہ حصول کی فصل پر مزارع کو ٹرخادیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ ظلم تھا‘ لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرمادیا۔ اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو بٹائی میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھیے‘ حدیث:۳۹۲۵) (۱) ’’موافقت کی ہے۔‘‘ اس سند میں موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح امام اوزاعی نے اپنی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح امام مالک بن انس نے بھی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دونوں حدیث میں کچھ فرق ہے اگرچہ الفاظ کے اس فرق کی وجہ سے حدیث کے معنی اور مفہوم میں کوئی فق یا اثر ن ہیں پڑتا۔ واللہ اعلم۔ (۲) گویا منع فرمانے کی وجہ وہ ظالمانہ شرائط تھیں جن کی بنا پر مزارع کو سراسر نقصان ہوتا تھا کہ زمین میں سے اچھے حصوں کی فصل مالک اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور ناکارہ حصول کی فصل پر مزارع کو ٹرخادیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ ظلم تھا‘ لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرمادیا۔ اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو بٹائی میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھیے‘ حدیث:۳۹۲۵)