كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ كُنَّا نُحَاقِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَعَمَ أَنَّ بَعْضَ عُمُومَتِهِ أَتَاهُ فَقَالَ نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا قُلْنَا وَمَا ذَاكَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيُزْرِعْهَا أَخَاهُ وَلَا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلَا رُبُعٍ وَلَا طَعَامٍ مُسَمًّى رَوَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ رَافِعٍ فَاخْتَلَفَ عَلَى رَبِيعَةَ فِي رِوَايَتِهِ
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہﷺ کے زمانے میں زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پھر میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے: مجھے رسول اللہﷺ نے اس کام سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے مفید تھا۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے ہر چیز سے بڑھ کر مفید ہے۔ ہم نے پوچھا: وہ کون سا کام ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس شخص کے پاس زمین ہو‘ وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو (بطور تحفہ) کاشت کے لیے دے دے اور اسے پیداوار کے تہائی یا چوتھائی یا معین غلے کے عوض کرایہ نہ دے۔‘‘
اس حدیث کو حنظلہ بن قیس نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (اور حنظلہ سے ربیعہ نے روایت کیا ہے) تو ربیعہ پر اس حدیث کی روایت میں (س کے شاگردوں کی طرف سے) اختلاف کیا گیا ہے۔
تشریح :
ربیعہ کے شاگردوں میں سے جب ان کے شاگرد لیث بیان کرتے ہیں تو وہ رافع بن خدیج کے بعد ان کے چچا کا ذکر کرتے ہیں اور مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ جب اوزعی ربیعہ سے بیان کرتے ہیں تو وہ رافع سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں لیکن رافع کے بعد ’’عمہ‘‘ کا ذکر نہیں کرتے۔ مالک بھی اوزاعی کی طرح ہی بیان کرتے ہیں لیکن انہوں نے متن میں اوزاعی کی مخالفت کی ہے جیسا کہ حدیث: ۳۹۳۱ میں ہے۔ سفیان ثوری جب ربیعہ سے بیان کرتے ہیں تو وہ رافع سے موقوفاً بیان کرتے ہیں اور ان کے چچا کا ذکر نہیں کرتے۔ لیکن یہ اختلاف مضر نہیں کیونکہ مرفوع بیان کرنے والے راوی ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے‘ لہٰذا اس روایت کا مرفوع ہونا راجح ہے۔ رہا رافع بن خدیج کے چچا کا مسئلہ تو ممکن ہے پہلے انہوں نے چچا سے سنا ہو‘ پھر نبی اکرمﷺ سے براہ راست سن لیا ہو۔ اسی لیے صحیحین میں یہ حدیث دونوں طرح مروی ہے۔ صحیح بخاری (حدیث: ۲۳۳۹) میں ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہے اور صحیح مسلم (حدیث: ۱۵۴۸) میں ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ بھی اور ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے بغیر بھی۔ واللہ اعلم۔
ربیعہ کے شاگردوں میں سے جب ان کے شاگرد لیث بیان کرتے ہیں تو وہ رافع بن خدیج کے بعد ان کے چچا کا ذکر کرتے ہیں اور مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ جب اوزعی ربیعہ سے بیان کرتے ہیں تو وہ رافع سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں لیکن رافع کے بعد ’’عمہ‘‘ کا ذکر نہیں کرتے۔ مالک بھی اوزاعی کی طرح ہی بیان کرتے ہیں لیکن انہوں نے متن میں اوزاعی کی مخالفت کی ہے جیسا کہ حدیث: ۳۹۳۱ میں ہے۔ سفیان ثوری جب ربیعہ سے بیان کرتے ہیں تو وہ رافع سے موقوفاً بیان کرتے ہیں اور ان کے چچا کا ذکر نہیں کرتے۔ لیکن یہ اختلاف مضر نہیں کیونکہ مرفوع بیان کرنے والے راوی ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے‘ لہٰذا اس روایت کا مرفوع ہونا راجح ہے۔ رہا رافع بن خدیج کے چچا کا مسئلہ تو ممکن ہے پہلے انہوں نے چچا سے سنا ہو‘ پھر نبی اکرمﷺ سے براہ راست سن لیا ہو۔ اسی لیے صحیحین میں یہ حدیث دونوں طرح مروی ہے۔ صحیح بخاری (حدیث: ۲۳۳۹) میں ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہے اور صحیح مسلم (حدیث: ۱۵۴۸) میں ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ بھی اور ’’عمہ‘‘ کے ذکر کے بغیر بھی۔ واللہ اعلم۔