سنن النسائي - حدیث 3925

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، حسن أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ كَانَ أَصْحَابُ الْمَزَارِعِ يُكْرُونَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَزَارِعَهُمْ بِمَا يَكُونُ عَلَى السَّاقِي مِنْ الزَّرْعِ فَجَاءُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَصَمُوا فِي بَعْضِ ذَلِكَ فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكْرُوا بِذَلِكَ وَقَالَ أَكْرُوا بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُلَيْمَانُ عَنْ رَافِعٍ فَقَالَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ عُمُومَتِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3925

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں فالتو زمین رکھنے والے اپنی زمینیں پانی کے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پھر (بسا اوقات) لوگ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہو کر اس کی بابت آپس میں لڑتے جھگڑتے‘ چنانچہ رسول اللہﷺ نے ان کو اس طرح بٹائی پر دینے سے منع کردیا اور فرمایا: ’’سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر دیا کرو۔‘‘ سلیمان نے رافع سے یہ حدیث بیان کی تو کہا: عن رجل من عمومتہ (ان کے چچاؤں میں سے ایک صاحب سے)۔
تشریح : :(۱) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن شواہد کی بنا پر حدیث میں مذکورہ مسئلہ صحیح ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے‘ نیز سنن ابی داود کی حدیث: ۳۳۹۱ کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم ابوداود دہی کی حدیث: ۳۳۹۵ اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’منع فرمادیا‘‘ کیونکہ اس قسم کی بٹائی سے مزارع کو نقصان ہوتا ہے۔ محنت وہ کرتا مگر اچھی اچھی فصل مالک زمین لے جاتا اور ا س کو ردی فصل پر گزارا کرنا پڑتا تھا‘ لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ البتہ اگر مطلقاً حصہ (مثلاً: کل پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ) کی بنیاد پر بٹائی ہوئی جھگڑا پیدا ہوگا نہ مزارع پر ظلم ہوگا‘ اس لیے بٹائی کی یہ صورت جائز ہے۔ ٹھیکہ بھی جائز ہے۔ :(۱) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن شواہد کی بنا پر حدیث میں مذکورہ مسئلہ صحیح ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے‘ نیز سنن ابی داود کی حدیث: ۳۳۹۱ کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم ابوداود دہی کی حدیث: ۳۳۹۵ اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’منع فرمادیا‘‘ کیونکہ اس قسم کی بٹائی سے مزارع کو نقصان ہوتا ہے۔ محنت وہ کرتا مگر اچھی اچھی فصل مالک زمین لے جاتا اور ا س کو ردی فصل پر گزارا کرنا پڑتا تھا‘ لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ البتہ اگر مطلقاً حصہ (مثلاً: کل پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ) کی بنیاد پر بٹائی ہوئی جھگڑا پیدا ہوگا نہ مزارع پر ظلم ہوگا‘ اس لیے بٹائی کی یہ صورت جائز ہے۔ ٹھیکہ بھی جائز ہے۔