سنن النسائي - حدیث 3910

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ وَأَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُخَابَرَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَبَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يُطْعَمَ إِلَّا الْعَرَايَا تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3910

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مخابرہ‘ مزابنہ‘ محاقلہ اور کچے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے مگر عرایا کی بیع ہوسکتی ہے۔ یونس بن عبید نے ابن جریج کی متابعت کی ہے۔
تشریح : (۱) مخابرہ بٹائی پر زمین دینے کو کہا جاتا ہے۔ منع کی تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔ (۲) مزابنہ‘ درخت پر لگے ہوئے پھل کی بیع معین مقدار میں خشک پھل کے عوض کرنا اور محاقلہ‘ کھیت میں اُگی ہوئی فصل کی بیع معین مقدار میں خشک غلے کے عوض کرنا۔ (ان دو کی ممانعت کی وجہ دیکھیے‘ فائدہ حدیث: ۳۸۹۴ میں۔) (۳) کچے پھل کی بیع اس لیے منع ہے کہ اس کے پکنے تک کئی آفات نازل ہوسکتی ہیں۔ بعد میں جھگڑے کا احتمال ہے‘ نیز اس میں خریدار کو نقصان کا قوی احتمال ہے جبکہ بیچنے والا اپنی رقم لے چکا ہے۔ ہوسکتا ہے پھل ضائع ہوجائے۔ خریدار رقم کہاں سے اور کیوں دے گا؟ (۴) عرایا‘ عریۃ کی جمع ہے۔ یہ مزابنہ سے استثنا ہے۔ عریہ سے مراد وہ درخت ہے جو کہ کوئی باغ والا کسی غریب آدمی کو تحفہ دے دیتا ہے کہ اس سال اس درخت کا پھل تو استعمال کر۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے‘ جبکہ پھل کی دیکھ بھال اور نگہداشت وغیرہ کے لیے اس غریب شخص کو باغ میں آنا جانا پڑے گا۔ ممکن ہے اس کے آنے جانے سے باغ والے کو تکلیف ہو یا وہ غریب شخص اتنی دیر تک پھل کے پکنے کا انتظار نہ کرسکتا ہو‘ لہٰذا شریعت نے فریقین کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اجازت دی ہے کہ وہ اس درخت پر موجودہ پھل کی بیع خشک معین پھل کے ساتھ کرلیں۔ اس غریب شخص کو خشک پھل مل جائے گا۔ درخت پھل سمیت باغ والے کو واپس چلا جائے گا۔ یہ بھی مزابنہ ہی ہے مگر غریب شخص کے لیے تھوڑی مقدار میں (تقریباً بیس من تک) اس کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔ (۱) مخابرہ بٹائی پر زمین دینے کو کہا جاتا ہے۔ منع کی تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔ (۲) مزابنہ‘ درخت پر لگے ہوئے پھل کی بیع معین مقدار میں خشک پھل کے عوض کرنا اور محاقلہ‘ کھیت میں اُگی ہوئی فصل کی بیع معین مقدار میں خشک غلے کے عوض کرنا۔ (ان دو کی ممانعت کی وجہ دیکھیے‘ فائدہ حدیث: ۳۸۹۴ میں۔) (۳) کچے پھل کی بیع اس لیے منع ہے کہ اس کے پکنے تک کئی آفات نازل ہوسکتی ہیں۔ بعد میں جھگڑے کا احتمال ہے‘ نیز اس میں خریدار کو نقصان کا قوی احتمال ہے جبکہ بیچنے والا اپنی رقم لے چکا ہے۔ ہوسکتا ہے پھل ضائع ہوجائے۔ خریدار رقم کہاں سے اور کیوں دے گا؟ (۴) عرایا‘ عریۃ کی جمع ہے۔ یہ مزابنہ سے استثنا ہے۔ عریہ سے مراد وہ درخت ہے جو کہ کوئی باغ والا کسی غریب آدمی کو تحفہ دے دیتا ہے کہ اس سال اس درخت کا پھل تو استعمال کر۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے‘ جبکہ پھل کی دیکھ بھال اور نگہداشت وغیرہ کے لیے اس غریب شخص کو باغ میں آنا جانا پڑے گا۔ ممکن ہے اس کے آنے جانے سے باغ والے کو تکلیف ہو یا وہ غریب شخص اتنی دیر تک پھل کے پکنے کا انتظار نہ کرسکتا ہو‘ لہٰذا شریعت نے فریقین کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اجازت دی ہے کہ وہ اس درخت پر موجودہ پھل کی بیع خشک معین پھل کے ساتھ کرلیں۔ اس غریب شخص کو خشک پھل مل جائے گا۔ درخت پھل سمیت باغ والے کو واپس چلا جائے گا۔ یہ بھی مزابنہ ہی ہے مگر غریب شخص کے لیے تھوڑی مقدار میں (تقریباً بیس من تک) اس کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔