كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ فَقَالَ إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ لَأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا وَقَدْ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ رَافِعٍ وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ وَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
حضرت عمروبن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاوس اپنی زمین سونے چاندی (یعنی رقم) کے عوض ٹھیکے پر دینا پسند کرتے تھے لیکن تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض بٹائی پر دینا جائز سمجھتے تھے۔ حضرت مجاہد نے ان سے کہا: حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے ہاں جائیے اور ان سے ان کی حدیث سنیے۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر مجھے علم ہوتا کہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں ہر گز یہ کام نہ کرتا لیکن مجھے ان سے بڑے عالم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺ نے تو صرف یہ فرمایا تھا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو اپنی (فالتو)ٌ زمین بطور عطیہ کے دے دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے‘ بجائے اس بات کے کہ وہ اس سے مقررہ پیداوار وصول کرلے۔‘‘
اس حدیث میں عطاء پر اختلاف کیا گیا ہے (عطاء کے شاگردوں نے اس پر اختلاف کیا ہے اور وہ اس طرح کہ) عبدالملک بن میسرہ نے (جب بیان کیا تو) کہا: عن عطاء عن رافع۔ اس کا ذکر ہم سابقہ حدیث میں کر آئے ہیں۔ اور عبدالملک بن ابی سلیمان نے (جب بیان کیا تو) کہا: عن عطاء عن جابر۔
تشریح :
(۱) حضرت طاوس مقررہ کے ٹھیکے کو شاید‘ اس کے لیے ناپسند فرماتے ہوں گے کہ اس میں مزارع کے نقصان کا احتمال ہے۔ مالک زمین نے تو مقررہ وصول کرلی۔ زمین میں اتنی فصل ہو یا نہ ہو۔ البتہ بٹائی میں ایک فریق کے نقصان کا خطرہ نہیں۔ نقصان ہوگا تو دونوں کا‘ نفع ہوگا تو دونوں کا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مزارع کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے‘ البتہ ٹھیکہ بھی مجبوری کی بنا پر جائز ہے۔ ٹھیکہ دراصل زمین کا کرایہ ہے۔ جب دوسری چیزوں کا کرایہ جائز ہے تو زمین کا کرایہ بھی جائز ہے‘ نیز بٹائی میں تنازع کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی بھی ہوسکتی ہے‘ جبکہ ٹھیکہ کی صورت میں تنازع اور بدگمانی کا خطرہ نہیں رہتا۔ (۲) ’’مقررہ پیداوار‘‘ یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ‘ نہ کہ وزن کے لحاظ سے معین کیونکہ یہ تو قطعاً جائز نہیں۔ (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق یہ آپ نے بطور ہمدردی نصیحت فرمائی ہے نہ کہ شرعی قانون بیان فرمایا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے۔
(۱) حضرت طاوس مقررہ کے ٹھیکے کو شاید‘ اس کے لیے ناپسند فرماتے ہوں گے کہ اس میں مزارع کے نقصان کا احتمال ہے۔ مالک زمین نے تو مقررہ وصول کرلی۔ زمین میں اتنی فصل ہو یا نہ ہو۔ البتہ بٹائی میں ایک فریق کے نقصان کا خطرہ نہیں۔ نقصان ہوگا تو دونوں کا‘ نفع ہوگا تو دونوں کا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مزارع کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے‘ البتہ ٹھیکہ بھی مجبوری کی بنا پر جائز ہے۔ ٹھیکہ دراصل زمین کا کرایہ ہے۔ جب دوسری چیزوں کا کرایہ جائز ہے تو زمین کا کرایہ بھی جائز ہے‘ نیز بٹائی میں تنازع کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی بھی ہوسکتی ہے‘ جبکہ ٹھیکہ کی صورت میں تنازع اور بدگمانی کا خطرہ نہیں رہتا۔ (۲) ’’مقررہ پیداوار‘‘ یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ‘ نہ کہ وزن کے لحاظ سے معین کیونکہ یہ تو قطعاً جائز نہیں۔ (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق یہ آپ نے بطور ہمدردی نصیحت فرمائی ہے نہ کہ شرعی قانون بیان فرمایا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے۔