سنن النسائي - حدیث 390

كِتَابُ الْحَيْضِ وَالِاسْتِحَاضَةِ بَاب شُهُودِ الْحُيَّضِ الْعِيدَيْنِ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ كَانَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَتْ بِأَبَا فَقُلْتُ أَسَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا قَالَتْ نَعَمْ بِأَبَا قَالَ لِتَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ وَتَعْتَزِلْ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 390

کتاب: حیض اور استحاضےسےمتعلق احکام و مسائل حیض والی خواتین کا عیدین میں جانا اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہونا حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو ضرور کہتیں: میرا باپ آپ پر فدا ہو۔ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ وہ کہنے لگیں: ہاں، میرا باپ آپ پر فدا ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’بالغ، پردش نشین اور حیض والی عورتیں عید کے لیے نکلیں۔ وہ اس نیکی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حیض والی عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔‘‘
تشریح : (۱) [بیبا] یا [بأبا] دراصل [بأبي] ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جانہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔ (۲) ’’ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟‘‘ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔ (۳) عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔ (۱) [بیبا] یا [بأبا] دراصل [بأبي] ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جانہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔ (۲) ’’ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟‘‘ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔ (۳) عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔