سنن النسائي - حدیث 3893

كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ ذِكْرُ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ رَافِعِ بْنِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى قَوْمِهِ إِلَى بَنِي حَارِثَةَ فَقَالَ يَا بَنِي حَارِثَةَ لَقَدْ دَخَلَتْ عَلَيْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا مَا هِيَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَبِّ قَالَ لَا قَالَ وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ فَقَالَ لَا وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي قَالَ لَا ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3893

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر "حضرت اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی قوم بنوحارثہ کی طرف گیا اور انہیں کہا: اے بنوحارثہ! تم پر ایک نئی مصیبت نازل ہوگئی ہے۔ وہ کہنے لگے: وہ کیا؟ میں نے کہا: رسول اللہﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم معین غلے کے عوض بٹائی دے سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: ہم معین توڑی کے عوض زمین پر کرایہ دیتے تھے؟ آپ نے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض زمین بٹائی پر دیتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ خود کا گوشت کردیا اپنے (دینی) بھائی کو بطور عطیہ (کچھ مدت کے لیے) دے دو۔‘‘ حضرت مجاہد نے حضرت رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے۔"
تشریح : (۱) رافع بن اسید نے اسید بن ظہیرکا واقعہ بنایا ہے جبکہ مجاہد نے اسے اسید بن ظہیر کے واسطے سے رافع بن خدیج سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے رافع بن خدیج کاواقعہ بنایا ہے۔ (۲) یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم دیگر روایات کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ مالک اپنی زمین جیسے چاہے‘ بٹائی یا ٹھیکے پر دے سکتاہے۔ شریعت کے اصول اسی بات کی تا ئید کرتے ہیں مگر چند شرائط ہیں کہ مزارع پر ظلم نہ ہو اور معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔ نبیﷺ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ کے لوگ ظالمانہ شرائط پر مزارعت کرتے تھے‘ مثلاً: اچھی زمین کی پیداوار اپنے لیے اور ناقص زمین کی پیداوار مزارع کے لیے۔ یا اس سے معین فصل (گندم یا جو وغیرہ کی معین مقدار) وصول کرلیتے تھے‘ اسے کچھ بچے یا نہ بچے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے مزارعت ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے ایسی مزارعت سے منع فرمایا ہے۔ یا بڑے جاگیرداروں کو منع فرمایا جن کے پاس فالتو زمینیں تھیں حتیٰ کہ وہ انہیں آباد نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے انہیں رغبت دلائی کہ تم زائداز ضرورت زمینیں اپنے مسلمان غریب بھائیوں کو ایک دو سال کے لیے دے دیا کرو ان سے پیداوار حاصل کرلیں اور اپنا گزارا کرلیں۔ تمہارا گزارا تو بخوبی ہورہا ہے۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی جس کا حکومت کو اختیار ہوتا ہے‘ نیز یہ سب کے لیے نہیں تھی بلکہ صرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے لیے تھی۔ خصوصاً جبکہ اس دور میں مدینہ منورہ میں غریب مہاجرین بکثرت تھے۔ اب بھی اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو بڑے جاگرداروں پر پابندی لگاسکتی ہے کہ وہ اتنی زمین اپنے پاس رکھیں جسے وہ خود بخوبی کاشت کرسکیں۔ باقی زمین غریب مزار عین میں تقسیم کردیں یا حکومت خود یہ کام کرے خصوصاً جبکہ یہ جاگیریں بھی حکومت وقت کی خوشامد اور ناجائز حمایت کرکے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر ایک حکومت کسی کو جاگیر دے سکتی ہے تو بعد میں آنے والی حکومت ان جاگیرداروں کو عوام الناس کے مفاد میں ختم بھی کرسکتی ہے اور محدود بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو کہ صحیح معنی ہیں ایک مجتہد خلیفہ تھے‘ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور جہاں ایسے مفاسد نہ ہوں‘ وہاں بٹائی یا ٹھیکے پر زمین دینا صحیح ہے۔ خیبر کا علاقہ جو آپ کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہودیوں کو بٹائی پر دیا گیا۔ زمیندار صحابہ وتابعین اپنی زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے تھے‘ لہٰذا یہ عمل صحیح ہے۔ بہر حال آپ کا منع فرمایا تو زمینداروں کی ظالمانہ شرائط لگانے کی بنا پر تھا یا انتظامی طور پر وقتی حکم یا مصلحت عامہ یا فقراء کی مواخاۃ کے پیش نظر تھا۔ یہ انتہائی مناسب تطبیق ہے جس سے سب روایات پر عمل ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱) رافع بن اسید نے اسید بن ظہیرکا واقعہ بنایا ہے جبکہ مجاہد نے اسے اسید بن ظہیر کے واسطے سے رافع بن خدیج سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے رافع بن خدیج کاواقعہ بنایا ہے۔ (۲) یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم دیگر روایات کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ مالک اپنی زمین جیسے چاہے‘ بٹائی یا ٹھیکے پر دے سکتاہے۔ شریعت کے اصول اسی بات کی تا ئید کرتے ہیں مگر چند شرائط ہیں کہ مزارع پر ظلم نہ ہو اور معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔ نبیﷺ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ کے لوگ ظالمانہ شرائط پر مزارعت کرتے تھے‘ مثلاً: اچھی زمین کی پیداوار اپنے لیے اور ناقص زمین کی پیداوار مزارع کے لیے۔ یا اس سے معین فصل (گندم یا جو وغیرہ کی معین مقدار) وصول کرلیتے تھے‘ اسے کچھ بچے یا نہ بچے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے مزارعت ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے ایسی مزارعت سے منع فرمایا ہے۔ یا بڑے جاگیرداروں کو منع فرمایا جن کے پاس فالتو زمینیں تھیں حتیٰ کہ وہ انہیں آباد نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے انہیں رغبت دلائی کہ تم زائداز ضرورت زمینیں اپنے مسلمان غریب بھائیوں کو ایک دو سال کے لیے دے دیا کرو ان سے پیداوار حاصل کرلیں اور اپنا گزارا کرلیں۔ تمہارا گزارا تو بخوبی ہورہا ہے۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی جس کا حکومت کو اختیار ہوتا ہے‘ نیز یہ سب کے لیے نہیں تھی بلکہ صرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے لیے تھی۔ خصوصاً جبکہ اس دور میں مدینہ منورہ میں غریب مہاجرین بکثرت تھے۔ اب بھی اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو بڑے جاگرداروں پر پابندی لگاسکتی ہے کہ وہ اتنی زمین اپنے پاس رکھیں جسے وہ خود بخوبی کاشت کرسکیں۔ باقی زمین غریب مزار عین میں تقسیم کردیں یا حکومت خود یہ کام کرے خصوصاً جبکہ یہ جاگیریں بھی حکومت وقت کی خوشامد اور ناجائز حمایت کرکے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر ایک حکومت کسی کو جاگیر دے سکتی ہے تو بعد میں آنے والی حکومت ان جاگیرداروں کو عوام الناس کے مفاد میں ختم بھی کرسکتی ہے اور محدود بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو کہ صحیح معنی ہیں ایک مجتہد خلیفہ تھے‘ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور جہاں ایسے مفاسد نہ ہوں‘ وہاں بٹائی یا ٹھیکے پر زمین دینا صحیح ہے۔ خیبر کا علاقہ جو آپ کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہودیوں کو بٹائی پر دیا گیا۔ زمیندار صحابہ وتابعین اپنی زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے تھے‘ لہٰذا یہ عمل صحیح ہے۔ بہر حال آپ کا منع فرمایا تو زمینداروں کی ظالمانہ شرائط لگانے کی بنا پر تھا یا انتظامی طور پر وقتی حکم یا مصلحت عامہ یا فقراء کی مواخاۃ کے پیش نظر تھا۔ یہ انتہائی مناسب تطبیق ہے جس سے سب روایات پر عمل ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔