كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ الثَّالِثُ مِنَ الشُّرُوطِ فِيهِ الْمُزَارَعَةُ وَالْوَثَائِقُ صحيح الإسناد مقطوع أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حِبَّانُ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ حَمَّادٍ وَقَتَادَةَ فِي رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ أَسْتَكْرِي مِنْكَ إِلَى مَكَّةَ بِكَذَا وَكَذَا فَإِنْ سِرْتُ شَهْرًا أَوْ كَذَا وَكَذَا شَيْئًا سَمَّاهُ فَلَكَ زِيَادَةُ كَذَا وَكَذَا فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا وَكَرِهَا أَنْ يَقُولَ أَسْتَكْرِي مِنْكَ بِكَذَا وَكَذَا فَإِنْ سِرْتُ أَكْثَرَ مِنْ شَهْرٍ نَقَصْتُ مِنْ كِرَائِكَ كَذَا وَكَذَا
کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل
شروط کی تیسری قسم: بٹائی پر زمین دینا اور ا س کی دستاویزات
حضرت حماد اور حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے مکہ تک کے لیے سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں‘ اگر پورا مہینہ یا اتنی مدت (جس کی وہ صراحت کرے) سفر میں رہا تو تجھے اتنے روپے مزید دوں گا۔ تو ان دونوں بزرگوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ وہ کہے: میں تجھ سے یہ سواری بات کو ناپسند کیا ہے کہ وہ کہے: میں تجھ سے یہ سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں اور اگر میں ایک ماہ سے زیادہ سفر میں رہا تو تجھے اتنا کرایہ کم دوں گا۔
تشریح :
مقصود یہ ہے کہ سواری تیز چلی اور وقت کم لگا تو تجھے زیادہ رقم دوں گا اور اگر سواری تیز نہ چلی اور وقت زیادہ لگا تو میں تجھے کم کرایہ دوں گا۔ پہلی صورت اس لیے جائز ہے کہ اس میں انعام دینے کی صورت ہے۔ اور ظاہر ہے انعام دینا تو جائز ہے۔ دوسری صورت اس لیے منع ہے کہ اس میں سواری والے پر ظلم ہے۔ ایک تو وقت زیادہ لگاا ور دوسرا کرایہ بھی کم۔ اور ظلم جائز نہیں۔
مقصود یہ ہے کہ سواری تیز چلی اور وقت کم لگا تو تجھے زیادہ رقم دوں گا اور اگر سواری تیز نہ چلی اور وقت زیادہ لگا تو میں تجھے کم کرایہ دوں گا۔ پہلی صورت اس لیے جائز ہے کہ اس میں انعام دینے کی صورت ہے۔ اور ظاہر ہے انعام دینا تو جائز ہے۔ دوسری صورت اس لیے منع ہے کہ اس میں سواری والے پر ظلم ہے۔ ایک تو وقت زیادہ لگاا ور دوسرا کرایہ بھی کم۔ اور ظلم جائز نہیں۔