سنن النسائي - حدیث 3856

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ إِذَا أَهْدَى مَالَهُ عَلَى وَجْهِ النَّذْرِ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ مَالَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ عَلَيَّ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3856

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی شخص اپنا مال بطور نذر صدقے کے لیے پیش کرے تو؟ حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں نے (اپنے والد محترم) حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا واقعہ بیان فرماتے ہوئے سنا‘ جب وہ غزوئہ تبوک میں رسول اللہﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کرتے ہوئے اس سے لاتعلق ہوجاؤں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپنا کچھ مال رکھ لے۔‘‘ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ میں نے کہا: میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
تشریح : (۱) ’’اللہ اور اس کے رسول کے لیے‘‘ کیونکہ اس موقع پر اللہ اور اس کا رسول دونوں ناراض ہوگئے تھے‘ لہٰذا دونوں کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو راضی کرنا منع نہیں‘ مثلاً: والدین کی رضا مندی کا حصول۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی رضا مندی اور ناراضی اکٹھی ہی ہوتی ہے۔ اللہ راضی تو رسول بھی راضی۔ اللہ ناراض تو رسول بھی ناراض‘ البتہ کسی عبادت‘ مثلاً: نماز‘ روزہ وغیرہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب ہی مقصود ہونا چاہیے۔ (۲) صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کی طاقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے‘ اس پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا ہو اٹھا سکے۔ (۱) ’’اللہ اور اس کے رسول کے لیے‘‘ کیونکہ اس موقع پر اللہ اور اس کا رسول دونوں ناراض ہوگئے تھے‘ لہٰذا دونوں کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو راضی کرنا منع نہیں‘ مثلاً: والدین کی رضا مندی کا حصول۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی رضا مندی اور ناراضی اکٹھی ہی ہوتی ہے۔ اللہ راضی تو رسول بھی راضی۔ اللہ ناراض تو رسول بھی ناراض‘ البتہ کسی عبادت‘ مثلاً: نماز‘ روزہ وغیرہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب ہی مقصود ہونا چاہیے۔ (۲) صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کی طاقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے‘ اس پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا ہو اٹھا سکے۔