سنن النسائي - حدیث 3854

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ إِذَا نَذَرَ ثُمَّ أَسْلَمَ قَبْلَ أَنْ يَفِيَ صحيح حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تِيبَ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ الزُّهْرِيُّ سَمِعَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ وَمِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ تَوْبَةُ كَعْبٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3854

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی شخص نذر مانے‘ پھر پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو؟ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے کل مال کو اللہ اور س کے رسول کی مرضی کے مطابق صدقے کرتے ہوئے اس سے لاتعلق ہونا چاہتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپناکچھ مال رکھ لے۔ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ممکن ہے زہری نے یہ حدیث عبداللہ بن کعب سے بھی سنی ہو اور ان سے (ان کے بھائی) عبدالرحمن بن کعب کے واسطے سے بھی۔ اس لمبی حدیث میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کا ذکر ہے۔
تشریح : (۱) امام زہری رحمہ اللہ یہ حدیث چار طریق سے بیان کرتے ہیں: ایک طریق میں وہ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے جیسا کہ اس حدیث کی سند میں ہے۔ دوسرے طریق میں عبدالرحمن بن کعب سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۵ میں ہے۔ تیسرے طریق میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں‘ اور وہ اپنے والد عبداللہ بن کعب سے جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۶ میں ہے اور چوتھے طریق میں بھی وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب ہی سے بیان کرتے ہیں‘ لیکن یہاں عبدالرحمن آگے اپنے والد کی بجائے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۷ میں ہے۔ واللہ اعلم۔ اس واقعے کا تعلق غزوئہ تبوک سے تھا۔ اس جنگ میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے سستی ہوگئی۔ وہ شامل نہ ہوسکے۔ ان سے بائیکاٹ کیا گیا جو پچاس دن تک جاری رہا پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا قرآن مجید میں اعلان کیا گیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) یہ حدیث مذکورہ باب سے نہیں بلکہ آئندہ باب سے متعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے بہت سے مقامات پر ایسے کیا ہے۔ جب ایک باب کے تحت بہت سی احادیث ہوں تو آخر میں ایک حدیث ایسی لاتے ہیں جو آئندہ باب سے تعلق رکھتی ہے۔ شاید یہ اشارہ کرنا مقصود ہو کہ آگے نیا باب آرہا ہے۔ یہ اسلوب صرف امام نسائی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ (۱) امام زہری رحمہ اللہ یہ حدیث چار طریق سے بیان کرتے ہیں: ایک طریق میں وہ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے جیسا کہ اس حدیث کی سند میں ہے۔ دوسرے طریق میں عبدالرحمن بن کعب سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۵ میں ہے۔ تیسرے طریق میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں‘ اور وہ اپنے والد عبداللہ بن کعب سے جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۶ میں ہے اور چوتھے طریق میں بھی وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب ہی سے بیان کرتے ہیں‘ لیکن یہاں عبدالرحمن آگے اپنے والد کی بجائے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: ۳۸۵۷ میں ہے۔ واللہ اعلم۔ اس واقعے کا تعلق غزوئہ تبوک سے تھا۔ اس جنگ میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے سستی ہوگئی۔ وہ شامل نہ ہوسکے۔ ان سے بائیکاٹ کیا گیا جو پچاس دن تک جاری رہا پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا قرآن مجید میں اعلان کیا گیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) یہ حدیث مذکورہ باب سے نہیں بلکہ آئندہ باب سے متعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے بہت سے مقامات پر ایسے کیا ہے۔ جب ایک باب کے تحت بہت سی احادیث ہوں تو آخر میں ایک حدیث ایسی لاتے ہیں جو آئندہ باب سے تعلق رکھتی ہے۔ شاید یہ اشارہ کرنا مقصود ہو کہ آگے نیا باب آرہا ہے۔ یہ اسلوب صرف امام نسائی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔