سنن النسائي - حدیث 3842

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ النَّذْرُ فِيمَا لَا يُرَادُ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ أَنَّ طَاوُسًا أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ يَقُودُهُ إِنْسَانٌ بِخِزَامَةٍ فِي أَنْفِهِ فَقَطَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَقُودَهُ بِيَدِهِ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ أَنَّ طَاوُسًا أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَإِنْسَانٌ قَدْ رَبَطَ يَدَهُ بِإِنْسَانٍ آخَرَ بِسَيْرٍ أَوْ خَيْطٍ أَوْ بِشَيْءٍ غَيْرِ ذَلِكَ فَقَطَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ قُدْهُ بِيَدِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3842

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل جس نذر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود نہ ہو‘ اسے پورا نہیں کرنا چاہیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کعبہ کا طواف کررہاتھا۔ اسے ایک اور انسان ا سکی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچ رہا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اسے کاٹ دیا اور اسے حکم دیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چلا۔ اس روایت میں یہ لفظ بھی آتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ طواف کے دوران میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اپنا ہاتھ کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رسی یا دھاگے وغیرہ کے ساتھ باندھ رکھا تھا‘ چنانچہ نبی اکرمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اس رسی کو کاٹ دیا اور فرمایا: ’’اسے ہاتھ پکڑ کر چلا۔‘‘
تشریح : گلے‘ ناک یا ہاتھ کو رسی باندھ کر آدمی کو کھینچنا جانوروں کے ساتھ تشبیہ ہے۔ ان کے عاقل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گلے یا ناک وغیرہ میں رسی ڈالنی پڑتی ہے تاکہ انہیں قابو کیا جاسکے‘ جبکہ انسان عاقل ہے۔ اسے زبان یا زیادہ سے زیادہ ہاتھ سے سمجھایا جاسکتا ہے‘ لہٰذا رسی یا نکیل کی ضرورت نہیں بلکہ یہ جانوروں کے ساتھ مشابہت ہے اور انسانیت کی توہین ہے جسے دین فطرت کے آخری نبی کیسے گوارا فرماسکتے تھے؟ فِدَاہُ نَفْسِیْ وَرُوحِي وَأبِي وأميﷺ۔ دور جاہلیت میں لوگ ایسی نذریں مان لیا کرتے تھے۔ جن سے سوائے مشقت‘ تکلیف یا ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ شریعتِ اسلامیہ نے ایسی تمام نذروں کو کالعدم قراردیا‘ یعنی نہ وہ مانی جائیں گی‘ اور نہ ان پر عمل کیا جائے گا‘ البتہ کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ گلے‘ ناک یا ہاتھ کو رسی باندھ کر آدمی کو کھینچنا جانوروں کے ساتھ تشبیہ ہے۔ ان کے عاقل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گلے یا ناک وغیرہ میں رسی ڈالنی پڑتی ہے تاکہ انہیں قابو کیا جاسکے‘ جبکہ انسان عاقل ہے۔ اسے زبان یا زیادہ سے زیادہ ہاتھ سے سمجھایا جاسکتا ہے‘ لہٰذا رسی یا نکیل کی ضرورت نہیں بلکہ یہ جانوروں کے ساتھ مشابہت ہے اور انسانیت کی توہین ہے جسے دین فطرت کے آخری نبی کیسے گوارا فرماسکتے تھے؟ فِدَاہُ نَفْسِیْ وَرُوحِي وَأبِي وأميﷺ۔ دور جاہلیت میں لوگ ایسی نذریں مان لیا کرتے تھے۔ جن سے سوائے مشقت‘ تکلیف یا ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ شریعتِ اسلامیہ نے ایسی تمام نذروں کو کالعدم قراردیا‘ یعنی نہ وہ مانی جائیں گی‘ اور نہ ان پر عمل کیا جائے گا‘ البتہ کفارہ ادا کرنا ہوگا۔