سنن النسائي - حدیث 3832

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ النَّهْيُ عَنِ النَّذْرِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ النَّذْرِ وَقَالَ إِنَّهُ لَا يَأْتِي بِخَيْرٍ إِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنْ الْبَخِيلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3832

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل نذر ماننے کی ممانعت کا بیان حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا: ’’اس کا کوئی فائدہ نہیں‘ البتہ اس کے ساتھ بخیل آدمی سے کچھ مال نکل آتا ہے۔‘‘
تشریح : جائز نذر ماننا گناہ کبیرہ اور مصییت تو نہیں مگر مستحب چیز بھی نہیں کیونکہ اس میں صدقے اور نیکی کو مشروط کیا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر میں صحیت یا ہوگیا تو پھر نیکی یا صدقہ کروںگا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے شرطیں لگانااچھی بات نہیں لیکن نفل نیکی یا صدقے کے لیے شرط لگانا منع بھی نہیں‘ لہٰذا اسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا مگر پورا کرنا بھی ضروری قراردیا گیا ہے۔ نذر کی بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ازخود بغیر کسی شرط کے صدقہ یا نیکی کرکے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگے کیونکہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے مگر نذر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سخی آدمی صدقہ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور بغیر عوض کے صدقہ کرتا ہے جبکہ بخیل شخص ویسے صدقہ نہیں کرتا بلکہ کسی چیز کے عوض میں صدقہ کرتا ہے‘ اس لیے نذر مان کر اسے چارونا چار صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ اشارتاً معلوم ہوا کہ نذر ماننا کنجوس اور بخیل شخص کا کام ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ نذر ماننے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے بعد میں پوری نہ ہوسکے۔ گویا دراصل یہ نذر پوری کرنے کی تاکید ہے۔ واللہ اعلم۔ جائز نذر ماننا گناہ کبیرہ اور مصییت تو نہیں مگر مستحب چیز بھی نہیں کیونکہ اس میں صدقے اور نیکی کو مشروط کیا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر میں صحیت یا ہوگیا تو پھر نیکی یا صدقہ کروںگا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے شرطیں لگانااچھی بات نہیں لیکن نفل نیکی یا صدقے کے لیے شرط لگانا منع بھی نہیں‘ لہٰذا اسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا مگر پورا کرنا بھی ضروری قراردیا گیا ہے۔ نذر کی بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ازخود بغیر کسی شرط کے صدقہ یا نیکی کرکے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگے کیونکہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے مگر نذر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سخی آدمی صدقہ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور بغیر عوض کے صدقہ کرتا ہے جبکہ بخیل شخص ویسے صدقہ نہیں کرتا بلکہ کسی چیز کے عوض میں صدقہ کرتا ہے‘ اس لیے نذر مان کر اسے چارونا چار صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ اشارتاً معلوم ہوا کہ نذر ماننا کنجوس اور بخیل شخص کا کام ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ نذر ماننے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے بعد میں پوری نہ ہوسکے۔ گویا دراصل یہ نذر پوری کرنے کی تاکید ہے۔ واللہ اعلم۔