سنن النسائي - حدیث 3825

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ النِّيَّةُ فِي الْيَمِينِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3825

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل قسم میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی‘ چنانچہ جس شخص کی (نیت) ہجرت (کرتے وقت) اللہ اور اس کے رسول (کی رضا مندی اور حکم کی تعمیل) کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی سمجھی جائے گی ہجرت (کا مقصود) دنیا کاحصول اور کسی عورت سے نکاح وغیرہ تھا تو اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے سمجھی جائے گی جو اس کا مقصود تھیں۔‘‘
تشریح : یہ اصولی اور جامع حدیث ہے جس کا تعلق شرعی امور سے بھی ہے اور دنیوی امور سے بھی۔ اگر شرعی امور سے اس کا تعلق ہو تو اس کے شرعی معنی مراد ہوںگ گے‘ یعنی خلوص لوجہ اللہ۔ اور اگر اس کاتعلق امور دنیا سے ہو تو اس کے لغوی معنی مراد ہوںگے‘ یعنی قصدوارادہ۔ قسم بھی دنیوی امور سے ہے‘ لہٰذا جس نیت سے قسم کھائی جائے گی‘ وہی نیت معتبر ہوگی۔ یا قسم کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو قسم کھانے والے کا مقصود تھا۔ (یہ حدیث اور اس کی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۷۵) یہ اصولی اور جامع حدیث ہے جس کا تعلق شرعی امور سے بھی ہے اور دنیوی امور سے بھی۔ اگر شرعی امور سے اس کا تعلق ہو تو اس کے شرعی معنی مراد ہوںگ گے‘ یعنی خلوص لوجہ اللہ۔ اور اگر اس کاتعلق امور دنیا سے ہو تو اس کے لغوی معنی مراد ہوںگے‘ یعنی قصدوارادہ۔ قسم بھی دنیوی امور سے ہے‘ لہٰذا جس نیت سے قسم کھائی جائے گی‘ وہی نیت معتبر ہوگی۔ یا قسم کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو قسم کھانے والے کا مقصود تھا۔ (یہ حدیث اور اس کی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۷۵)