سنن النسائي - حدیث 3824

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى صحيح أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَبَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى فَإِنْ شَاءَ مَضَى وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ غَيْرَ حَنِثٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3824

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ پڑھ لے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ دے‘ وہ چاہے وہ قسم کو پورا کرے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘
تشریح : :(۱) انشاء اللہ کے معنی ہیں: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قسم کھانے والے نے حتمی قسم نہیں کھائی۔ گویا اگر یہ کام کرسکا تو کرے گا ورنہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاہا‘ لہٰذا یہ کام نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے اس پر گناہ کیونکر آئے گا؟ البتہ وعدہ وغیرہ میں ان شاء اللہ کو وعدہ خلافی کے لیے بہانا نہیں بنایا جاسکتا بلکہ صرف تبرکاً ہی پڑھنا چاہیے ورنہ وعدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ (۲) ’’ان شاء اللہ‘‘ ان الفاظ کا ظاہراً کہنا مقصود ہے۔ اگر کوئی نیت میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہے گا تو اس کا اعتبار نہیں کیونکہ قسم کا انعقاد ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے نیت سے نہیں۔ :(۱) انشاء اللہ کے معنی ہیں: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قسم کھانے والے نے حتمی قسم نہیں کھائی۔ گویا اگر یہ کام کرسکا تو کرے گا ورنہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاہا‘ لہٰذا یہ کام نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے اس پر گناہ کیونکر آئے گا؟ البتہ وعدہ وغیرہ میں ان شاء اللہ کو وعدہ خلافی کے لیے بہانا نہیں بنایا جاسکتا بلکہ صرف تبرکاً ہی پڑھنا چاہیے ورنہ وعدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ (۲) ’’ان شاء اللہ‘‘ ان الفاظ کا ظاہراً کہنا مقصود ہے۔ اگر کوئی نیت میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہے گا تو اس کا اعتبار نہیں کیونکہ قسم کا انعقاد ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے نیت سے نہیں۔