سنن النسائي - حدیث 3811

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ الْكَفَّارَةُ قَبْلَ الْحِنْثِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ فَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ ثُمَّ لَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ فَأُتِيَ بِإِبِلٍ فَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثِ ذَوْدٍ فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ لَا يُبَارِكُ اللَّهُ لَنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا قَالَ أَبُو مُوسَى فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ بَلْ اللَّهُ حَمَلَكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3811

کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل کفارہ قسم توڑنے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں کچھ اشعری افراد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں خاضر ہوا۔ ہم آپ سے (جہاد کے سلسلے میں) سواریاں مانگنے آئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں تمہیں سواریاں نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس سواریاں ہیں۔‘‘ پھر ہم ٹھہرے رہے جتنی دیر اللہ نے چاہا کہ (بعد میں) آپ کے پاس کچھ اونٹ لائے گئے۔ آپ نے ہمیں تین اونٹ دینے کا حکم دیا۔ جب ہم اونٹ لے کر چل پڑے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا: اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ان اونٹوں میں برکت نہیں فرمائے گا کیونکہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس سورایاں مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھائی تھی کہ میں سوارایاں نہیں دوں گا۔ (اب شاید آپ قسم بھول گئے ہیں۔ یہ سوچ کر) ہم دوبارہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ساری بات ذکر کی۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں سواریاں نہیں دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر میں کسی چیز پر قسم کھالوں ‘پھر میں اس کی بجائے کوئی اور چیز بہتر سمجھوں تو میں قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور بہتر کام کرلیتا ہوں۔‘‘
تشریح : (۱) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبیﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔ (۲) ’’میں نے نہیں دیں‘‘ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔ (۳) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔ (۱) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبیﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔ (۲) ’’میں نے نہیں دیں‘‘ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔ (۳) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔