كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ الْحَلِفُ بِالْآبَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ مَرَّةً وَهُوَ يَقُولُ وَأَبِي وَأَبِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَوَاللَّهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا بَعْدُ ذَاكِرًا وَلَا آثِرًا
کتاب: قسم اور نذر سے متعلق احکام و مسائل
آباؤاجداد کی قسم کھانا
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ) سے راویت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ کہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرماتا ہے۔‘‘ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کبھی بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔ نہ اپنے طور پر‘ نہ کسی کی نقل کرتے ہوئے۔
تشریح :
(۱) ’’اپنے طور پر‘‘ یعنی خود قصداً قسم کھائی ہو۔ اور ’’نقل کرتے ہوئے‘‘ یعنی فلاں نے یہ قسم کھائی۔ (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰـ نے عطا کیا وہ اسی اطاعت اور فرمانبرداری کی بنا پر تھا۔ دوبارہ کبھی اس بات کو نہ دہرایا جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمادیا۔
(۱) ’’اپنے طور پر‘‘ یعنی خود قصداً قسم کھائی ہو۔ اور ’’نقل کرتے ہوئے‘‘ یعنی فلاں نے یہ قسم کھائی۔ (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰـ نے عطا کیا وہ اسی اطاعت اور فرمانبرداری کی بنا پر تھا۔ دوبارہ کبھی اس بات کو نہ دہرایا جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمادیا۔