سنن النسائي - حدیث 3718

كِتَابُ الْهِبَةِ هِبَةُ الْمُشَاعِ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَتْهُ وَفْدُ هَوَازِنَ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ وَقَدْ نَزَلَ بِنَا مِنْ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ فَامْنُنْ عَلَيْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ فَقَالَ اخْتَارُوا مِنْ أَمْوَالِكُمْ أَوْ مِنْ نِسَائِكُمْ وَأَبْنَائِكُمْ فَقَالُوا قَدْ خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا بَلْ نَخْتَارُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ فَقُومُوا فَقُولُوا إِنَّا نَسْتَعِينُ بِرَسُولِ اللَّهِ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَوْ الْمُسْلِمِينَ فِي نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا صَلَّوْا الظُّهْرَ قَامُوا فَقَالُوا ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ فَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَةَ فَلَا وَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا فَقَامَتْ بَنُو سُلَيْمٍ فَقَالُوا كَذَبْتَ مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ تَمَسَّكَ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ فَلَهُ سِتُّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْنَا وَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَرَكِبَ النَّاسُ اقْسِمْ عَلَيْنَا فَيْئَنَا فَأَلْجَئُوهُ إِلَى شَجَرَةٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لَكُمْ شَجَرَ تِهَامَةَ نَعَمًا قَسَمْتُهُ عَلَيْكُمْ ثُمَّ لَمْ تَلْقَوْنِي بَخِيلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا كَذُوبًا ثُمَّ أَتَى بَعِيرًا فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ هَا إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذِهِ إِلَّا خُمُسٌ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ بِكُبَّةٍ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْدَعَةَ بَعِيرٍ لِي فَقَالَ أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ فَقَالَ أَوَبَلَغَتْ هَذِهِ فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا فَنَبَذَهَا وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ يَكُونُ عَلَى أَهْلِهِ عَارًا وَشَنَارًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3718

کتاب: ہبہ سے متعلق احکام و مسائل مشترک چیز کاہبہ بھی جائز ہے حضرت عمروبن شعیب کے پردادا محترم (حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کے پاس قبیلئہ ہوازن کا وفد حاضر ہوا اور انہوں نے کہا: اے محمد! ہم ایک اصل عربی قبیلہ ہیں اور ہم پر جو مصیبت نازل ہوئی ہے آپ اس سے بخوبی واقف ہیں‘ لہٰذا آپ ہم پر احسان فرمائیں‘ اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مال لینا پسند کرلو یا اپنی عورتیں اور اپنے بچے۔‘‘ وہ کہنے لگے: آپ نے ہمیں مال اور خاندان میں سے ایک چیز پسند کرنے کو فرمایا ہے تو ہم اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو پسند کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو میرے اور عبدالمطلب کے خاندان کے حصے میں آئے ہیں‘ وہ میں نے تمہیں دے دیے۔ جب میں ظہر کی نماز سے فارغ ہوں تو تم کھڑے ہوکر کہنا: ہم مومنین سے اپنے بیوی بچے واپس لینے کے لیے رسول اللہﷺ سے مدد کے خواستگار ہیں۔‘‘ جب لوگوں نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو انہوں نے کھڑے ہو کر یہی بات کہی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو میرے اور عبدالمطلب کے خاندان کے حصے میں آیا ہے‘ وہ تمہارا ہوگیا۔‘‘ مہاجرین کہنے لگے: جو ہمارے حصے میں آئے ہیں ان کا اختیار بھی رسول اللہﷺ کو ہے۔ انصار نے بھی کہا: جو کچھ ہمارے حصے میں آیا ہے‘ اس کا اختیار بھی رسول اللہﷺ کو ہے۔ اقرع بن حابس نے کہا: میں اور بنو تمیم تو کسی کو اختیار نہیں دیتے۔ عباس بن مرداس نے کہا: میں اور (میرا قبیلہ) بنوسلیم بھی اختیار نہیں دیتے ۔ بنوسلیم اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: تو غلط کہتا ہے۔ جو کچھ ہمارے حصے میں آیا ہے ا سکا اختیار بھی رسول اللہﷺ کو ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس کردو۔ البتہ جو شخص اس غنیمت سے اپنے حصے کو برقرار رکھنا چاہے تو اسے (اس حصے کے عوض) چھ چھ اونٹ مل جائیں گے‘ اس مال می ںسے جو پہلے پہل عزوجل ہمیں عطا فرمائے گا (لیکن اب وہ اپنا حصہ چھوڑدے)۔‘‘ پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے تو لوگ بھی سوار ہوئے (اور آپ کو گھیرے میں لے لیا) کہ ہمیں غنیمت تقسیم کردیجیے حتیٰ کہ انہوں نے اس دھکم پیل میں آپ کو ایک درخت تک پہنچا دیا۔ آپ کی چادر درخت کے کانٹوں میں پھنس گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! مجھے میری چادر تو واپس کردو۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے لیے (میرے پاس) تہامہ کے درختوں کے برابر اونٹ ہوتے تو میں وہ سب تم میں تقسیم کردیتا‘ پھر تم مجھے بخیل یا بزدل یا جھوٹا نہ پاتے۔‘‘ پھر ایک اونٹ کے پاس آئے۔ اس کے کوہان سے کچھ اون اکھاڑی او راپنی دوانگلیوں کے درمیان پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’سنو! اے لوگو! میرے لیے مال فے میں سے کچھ بھی نہیں‘ اتنا بھی نہیں‘ علاوہ خمس (پانچواں حصے) کے اور وہ بھی واپس تمہیں ہی مل جاتا ہے۔‘‘ (یہ سن کر) ایک آدمی بالوں کا ایک گچھا لے کر اٹھا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے اونٹ کا نمدہ درست کرنے کے لیے یہ گچھا لیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس میں جو تو میرا اور عبدالمطلب کے خاندان کا حصہ تھا وہ تجھے معاف ہے (باقی کو تو جانے)۔ وہ شخص کہنے لگا: اس معمولی سی چیز کا یہ مرتبہ ہے؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں اور اس نیاسے پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! سوئی اور دھاگے تک (مال غنیمت) میرے پاس پہنچادو کیونکہ خیامت قیامت کے دن خیانت کرنے والے کے لیے عیب اور عار بن جائے گی۔‘‘
تشریح : (۱) ’’مصیبت نازل ہوئی‘‘ یہ غزوئہ حنین کی بات ہے۔ فتح مکہ کے بعد نبیﷺ کو اطلاع ملی کہ بنوہوازن وغیرہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں۔ آپ نے ان سے مقابلے کا فیصلہ فرمایا۔ جنگ ہوئی تو ہوازن وغیرہ کو شکست ہوئی اور ان کے بیوی‘ بچے‘ اونٹ‘ بکریاں غیرضیکہ ہر چیز مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ آپ نے تقسیم کرنے سے چودہ دن تک احتراز فرمایا کہ اگر یہ قبیلہ مسلمان ہوکر آجائے تو ان کا اہل ومال بھی انہیں واپس کردیا جائے۔ لیکن وہ ڈرتے نہ آئے۔ آخر آپ نے ان کا مال واہل تقسیم فرمادیا۔ تقسیم کے بعد لو لوگ وفد کی صورت میں آئے۔ اپنے اسلام کا بھی اعلان کیا اور اپنے اہل ومال کی تقسیم کی واپسی کی درخواست بھی کی۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ اگر تم پہلے آجاتے تو سب کچھ تمہیں مل جاتا۔ مگر اب تقسیم ہوچکی ہے۔ سب کچھ وپس لینا مشکل ہوگا‘ لہٰـذا اہل ومال میں سے ایک چیز کو پسند کرلو۔‘‘ (۲) اقرع بن جاگزیں نہیں ہوئے تھے اور نہ انہیں رسول اللہﷺ کی تربیت سے فیض یاب ہونے کا موقع ہی ملا تھا‘ اس لیے انہوں نے ا سقسم کے الفاظ استعمال کیے ورنہ محض صحابہ تو ایسے انداز کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ (۳) ’’چھ چھ اونٹ مل جائیں گے‘‘ آپ کا مقصد یہ تھا کہ میں ان کے بیوی بچوں کو واپسی کا فیصلہ کرچکاہوں‘ لہٰذا سب کو واپس کرنے پڑیں گے‘ البتہ جو اپنا حصہ برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اسے ہم آئندہ ملنے والی کسی غنیمت سے اس کے اس حصے کے عوض چھ اونٹ دے دیں گے۔ اب وہ ان کے بیوی بچے انہیں واپس کردے۔ (۴) ’’لوگوں نے گھیر لیا‘‘ یہ غالبا۔ اسلامی لشکر میں شامل لوگ نہیں تھے کیونکہ انہیں تو حصہ مل چکا تھا‘ بلکہ یہ اردگرد کے اعراب ہوں گے ج وغنیمت کی خبر سن کر دوڑ آئے ہوں گے اور بلاوجہ مانگ رہے تھے‘ جبکہ غنیمت تقسیم ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود آپ نے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا اور گستاخی پر ان کا مواخذہ بھی نہیں کیا۔ﷺ۔ (۶) ’’تمہیں ہی مل جاتا ہے‘‘ کیونکہ خمس بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ آپ اپنی ضروریات کے مطابق اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسلمانوں کے مصالح ہی پر صرف ہوتا تھا۔ (۷) ’’میرا اور خاندان عبدالمطلب اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسئلہ پر دلالت ہوتی ہے کہ آپ اور خاندان عبدالمطلب کا حصہ الگ نہیں تھا بلکہ کل کے اندر ہی شامل تھا اور وہی آپ نے ہبہ یا معاف کیا ہے‘ لہٰذا مشترک چیز کا ہبہ کرنا جائز ہے۔ (۸) اگر امام مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۱) ’’مصیبت نازل ہوئی‘‘ یہ غزوئہ حنین کی بات ہے۔ فتح مکہ کے بعد نبیﷺ کو اطلاع ملی کہ بنوہوازن وغیرہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں۔ آپ نے ان سے مقابلے کا فیصلہ فرمایا۔ جنگ ہوئی تو ہوازن وغیرہ کو شکست ہوئی اور ان کے بیوی‘ بچے‘ اونٹ‘ بکریاں غیرضیکہ ہر چیز مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ آپ نے تقسیم کرنے سے چودہ دن تک احتراز فرمایا کہ اگر یہ قبیلہ مسلمان ہوکر آجائے تو ان کا اہل ومال بھی انہیں واپس کردیا جائے۔ لیکن وہ ڈرتے نہ آئے۔ آخر آپ نے ان کا مال واہل تقسیم فرمادیا۔ تقسیم کے بعد لو لوگ وفد کی صورت میں آئے۔ اپنے اسلام کا بھی اعلان کیا اور اپنے اہل ومال کی تقسیم کی واپسی کی درخواست بھی کی۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ اگر تم پہلے آجاتے تو سب کچھ تمہیں مل جاتا۔ مگر اب تقسیم ہوچکی ہے۔ سب کچھ وپس لینا مشکل ہوگا‘ لہٰـذا اہل ومال میں سے ایک چیز کو پسند کرلو۔‘‘ (۲) اقرع بن جاگزیں نہیں ہوئے تھے اور نہ انہیں رسول اللہﷺ کی تربیت سے فیض یاب ہونے کا موقع ہی ملا تھا‘ اس لیے انہوں نے ا سقسم کے الفاظ استعمال کیے ورنہ محض صحابہ تو ایسے انداز کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ (۳) ’’چھ چھ اونٹ مل جائیں گے‘‘ آپ کا مقصد یہ تھا کہ میں ان کے بیوی بچوں کو واپسی کا فیصلہ کرچکاہوں‘ لہٰذا سب کو واپس کرنے پڑیں گے‘ البتہ جو اپنا حصہ برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اسے ہم آئندہ ملنے والی کسی غنیمت سے اس کے اس حصے کے عوض چھ اونٹ دے دیں گے۔ اب وہ ان کے بیوی بچے انہیں واپس کردے۔ (۴) ’’لوگوں نے گھیر لیا‘‘ یہ غالبا۔ اسلامی لشکر میں شامل لوگ نہیں تھے کیونکہ انہیں تو حصہ مل چکا تھا‘ بلکہ یہ اردگرد کے اعراب ہوں گے ج وغنیمت کی خبر سن کر دوڑ آئے ہوں گے اور بلاوجہ مانگ رہے تھے‘ جبکہ غنیمت تقسیم ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود آپ نے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا اور گستاخی پر ان کا مواخذہ بھی نہیں کیا۔ﷺ۔ (۶) ’’تمہیں ہی مل جاتا ہے‘‘ کیونکہ خمس بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ آپ اپنی ضروریات کے مطابق اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسلمانوں کے مصالح ہی پر صرف ہوتا تھا۔ (۷) ’’میرا اور خاندان عبدالمطلب اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسئلہ پر دلالت ہوتی ہے کہ آپ اور خاندان عبدالمطلب کا حصہ الگ نہیں تھا بلکہ کل کے اندر ہی شامل تھا اور وہی آپ نے ہبہ یا معاف کیا ہے‘ لہٰذا مشترک چیز کا ہبہ کرنا جائز ہے۔ (۸) اگر امام مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔