سنن النسائي - حدیث 3702

كِتَابُ النُّحْلِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ فِي النُّحْلِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ حُمَيْدٍ ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ سَمِعْنَاهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ نَحَلَهُ غُلَامًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْهِدُهُ فَقَالَ أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ قَالَ لَا قَالَ فَارْدُدْهُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3702

کتاب: عطیہ سے متعلق احکام و مسائل عطیہ کرنے کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کے ناقلین کے لفظی اختلاف کا بیان حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام بطور عطیہ دیا‘ پھر وہ نبی اکرمﷺ کو گواہ بنانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو عطیہ دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر اسے بھی واپس لے لو۔‘‘ یہ سیاق محمد بن منصور کا ہے۔ (قتیبہ بن سعید بالمعنی بیان کرتے ہیں۔)
تشریح : (۱) باپ کا اولاد کا باہمی رشتہ بہت قریبی ہے۔ اس میں ذرہ بھر خرابی بھی بہت سے مفاسد کا موجب ہے‘ لہٰذاشریعت کی طرف سے ہدایت ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ صرف ایک بیٹے کو عطیہ دینا دوسرے بیٹوں میں اس بھائی اور باپ کے خلاف نفرت پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں‘ اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو سب کو دیا جائے۔ ایسی صریح روایت کی موجودگی میں احناف کا یہ کہنا تعجب ہے کہ اولاد میںمساوات کی کوئی ضروری نہیں۔‘‘ (۲) یہ مساوات صرف تحفہ اور عطیہ میں ہے۔ باقی رہے تفقات تو اس میں حصہ بقدر جبثہ ہوگا‘ مثلاً: کھانے پینے‘ پہننے‘ تعلیم‘ نکاح وغیرہ کے اخراجات سب کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ ضرورت کے مطابق ہوں گے۔ (۱) باپ کا اولاد کا باہمی رشتہ بہت قریبی ہے۔ اس میں ذرہ بھر خرابی بھی بہت سے مفاسد کا موجب ہے‘ لہٰذاشریعت کی طرف سے ہدایت ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ صرف ایک بیٹے کو عطیہ دینا دوسرے بیٹوں میں اس بھائی اور باپ کے خلاف نفرت پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں‘ اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو سب کو دیا جائے۔ ایسی صریح روایت کی موجودگی میں احناف کا یہ کہنا تعجب ہے کہ اولاد میںمساوات کی کوئی ضروری نہیں۔‘‘ (۲) یہ مساوات صرف تحفہ اور عطیہ میں ہے۔ باقی رہے تفقات تو اس میں حصہ بقدر جبثہ ہوگا‘ مثلاً: کھانے پینے‘ پہننے‘ تعلیم‘ نکاح وغیرہ کے اخراجات سب کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ ضرورت کے مطابق ہوں گے۔