سنن النسائي - حدیث 3700

كِتَابُ الْوَصَايَا مَا لِلْوَصِيِّ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ إِذَا قَامَ عَلَيْهِ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا قَالَ كَانَ يَكُونُ فِي حَجْرِ الرَّجُلِ الْيَتِيمُ فَيَعْزِلُ لَهُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَآنِيَتَهُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ فَأَحَلَّ لَهُمْ خُلْطَتَهُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3700

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل جو شخص (وصیت کے نتیجے میں) یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرے اس کا اس میں کیا حق ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: {اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ…} ’’یقینا جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں…الخ‘‘ کے بارے میں مروی ہے‘ انہوں نے فرمایا: یتیم جن لوگوں کے زیر سایہ پرورش پارہے تھے (یہ آیت سن کر) انہوں نے یتیم کا کھانا پینا الگ کردیا حتیٰ کہ برتن بھی۔ لیکن اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیدا ہوئی‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: {وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ} ’’اگر تم یتیموں کے ساتھ مل جل کر رہو تو کوئی حرج نہیں۔ وہ تمہارے (دینی) بھائی بند ہیں۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ مل کر رہنا جائز قراردے دیا۔
تشریح : ہر معاشرے میں یتیم بچے‘ اگر ایک دو ہوں‘ تو وہ دوسرے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا بھی مشترکہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ اگر ان کا کھانا پینا الگ ہو تو زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ عرب میں بھی ایسے ہی تھا۔ جب یہ آیت اتری تو لوگ ڈر گئے کہ کہیں یتیم بچوں کی کوئی چیز ہمارے پیٹ میں نہ چلی جائے‘ لہٰذا انہوں نے بطور تقویٰ یتیم بچوں کا کھانا پینا الگ کردیا‘ حالانکہ شریعت کا منشا صراحت فرمادی کہ نیت خیرخواہی اور ہمدردی کی ہو تو انہیں اپنے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مقصد تو یتیموں کا بھلا ہی ہے جیسے بھی ممکن ہو۔ ہر معاشرے میں یتیم بچے‘ اگر ایک دو ہوں‘ تو وہ دوسرے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا بھی مشترکہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ اگر ان کا کھانا پینا الگ ہو تو زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ عرب میں بھی ایسے ہی تھا۔ جب یہ آیت اتری تو لوگ ڈر گئے کہ کہیں یتیم بچوں کی کوئی چیز ہمارے پیٹ میں نہ چلی جائے‘ لہٰذا انہوں نے بطور تقویٰ یتیم بچوں کا کھانا پینا الگ کردیا‘ حالانکہ شریعت کا منشا صراحت فرمادی کہ نیت خیرخواہی اور ہمدردی کی ہو تو انہیں اپنے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مقصد تو یتیموں کا بھلا ہی ہے جیسے بھی ممکن ہو۔