سنن النسائي - حدیث 3699

كِتَابُ الْوَصَايَا مَا لِلْوَصِيِّ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ إِذَا قَامَ عَلَيْهِ حسن أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ عَنْ عَطَاءٍ وَهُوَ ابْنُ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ وَ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا قَالَ اجْتَنَبَ النَّاسُ مَالَ الْيَتِيمِ وَطَعَامَهُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ إِلَى قَوْلِهِ لَأَعْنَتَكُمْ(البقرۃ:220)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3699

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل جو شخص (وصیت کے نتیجے میں) یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرے اس کا اس میں کیا حق ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت اتری: {وَلاَ تَقْرَبُوْا الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} ’’اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر انتہائی اچھے انداز سے۔‘‘ اور {اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْماً} ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ ناحق یتیموںکا مال کھاتے ہیں…الخ‘‘ تو لوگوں نے یتیموں کے مال کھانیاور پینے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیداہوئی‘ چنانچہ انہوں نے ا س کی شکایت رسول اللہﷺ سے کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلاحٌ لَّھُمْ خَیْ… لَاَعْنَتَکُمْ} ’’لوگ آپ سے یتیم بچوں (کے ساتھ رہنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے: ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے۔… (اور اگر اللہ چاہتا تو) تمہیں تکلیف مں ڈال دیتا۔‘‘
تشریح : محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ مجعم کبیر کی حدیث اس سے کفایت کرتی ہے کیونکہ ا س کی سند حسن ہے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث محقق کتاب کے نزدیک بھی قابل عمل اور قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی شواہد ومتابعات کی بنا پر اس روایت کو قابل حجت قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی:۳۰/۱۸۱) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ مجعم کبیر کی حدیث اس سے کفایت کرتی ہے کیونکہ ا س کی سند حسن ہے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث محقق کتاب کے نزدیک بھی قابل عمل اور قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی شواہد ومتابعات کی بنا پر اس روایت کو قابل حجت قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی:۳۰/۱۸۱)