سنن النسائي - حدیث 3697

كِتَابُ الْوَصَايَا النَّهْيُ عَنِ الْوِلَايَةِ عَلَى مَالِ الْيَتِيمِ صحيح أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ عَلَى مَالِ يَتِيمٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3697

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل یتیم کے مال کی سرپر ستی کی ممانعت کا بیان حضرت ابوذرـ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے ابوذر! میں تجھے کمزور سمجھتا ہوں اور میں تیرے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ تو دوآدمیوں کا بھی امیر نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے مال کا سرپرست بننا۔‘‘
تشریح : (۱) یتیم کے مال کی سرپرستی چونکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مزاحمت یا نگرانی کا خطرہ نہیں ہوتا‘ لہٰذا یہ انتہائی ہمدردی‘ اللہ کے ڈر بلکہ ایثار کی متقاضی ہے۔ ہر آدمی اس مرتبے کا نہیں ہوتا‘ لہٰذا اس میں جلد بازی یا پیش کش سے روکا گیا ہے‘ البتہ اگر کسی پر یہ ذمہ داری مجبوراً آن پڑے تو اسے سرانجام دینی ہوگی۔ جو شخص اس کے تقاضے پورے نہ کرسکے‘ وہ اس سے انکار کردے۔ (۲) ’’کمزور‘‘ یعنی تجھ میں امارت وسیادت اور سربراہی کے اوصاف کمزور ہیں۔ بعد کے واقعات نے اس کا ثبوت مہیا کردیا‘ مثلاً: تمام صحابہ سے اختلاف رائے‘ خلیفئہ راشد سے اختلاف‘ مال رکھنے اور بیت المال قائم کرنے کے مسئلے میں ان کا مسلک تمام صحابہ سے جداگانہ تھا۔ اسی بنا پر انہیں زندگی کے آخری دن ربذہ میں گزارنے پڑے۔ اگرچہ وہ انتہائی زاہد اور نیک شخص تھے مگر امارت اس سے مختلف چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص انتہائی نیک ہو‘ وہ امارت وسیادت کا بھی اتنا ہی اہل ہو‘ لہٰـذا آپ نے انہیں امارت سے منع فرمادیا۔ (۳) ’’سرپرست نہ بننا‘‘ کیونکہ جو شخص مطلقاً مال جمع رکھنے کا قائل نہ ہو‘ ممکن ہے وہ اسی جوش میں تیتیم کا مال بھی صدقہ کردے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۱) یتیم کے مال کی سرپرستی چونکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مزاحمت یا نگرانی کا خطرہ نہیں ہوتا‘ لہٰذا یہ انتہائی ہمدردی‘ اللہ کے ڈر بلکہ ایثار کی متقاضی ہے۔ ہر آدمی اس مرتبے کا نہیں ہوتا‘ لہٰذا اس میں جلد بازی یا پیش کش سے روکا گیا ہے‘ البتہ اگر کسی پر یہ ذمہ داری مجبوراً آن پڑے تو اسے سرانجام دینی ہوگی۔ جو شخص اس کے تقاضے پورے نہ کرسکے‘ وہ اس سے انکار کردے۔ (۲) ’’کمزور‘‘ یعنی تجھ میں امارت وسیادت اور سربراہی کے اوصاف کمزور ہیں۔ بعد کے واقعات نے اس کا ثبوت مہیا کردیا‘ مثلاً: تمام صحابہ سے اختلاف رائے‘ خلیفئہ راشد سے اختلاف‘ مال رکھنے اور بیت المال قائم کرنے کے مسئلے میں ان کا مسلک تمام صحابہ سے جداگانہ تھا۔ اسی بنا پر انہیں زندگی کے آخری دن ربذہ میں گزارنے پڑے۔ اگرچہ وہ انتہائی زاہد اور نیک شخص تھے مگر امارت اس سے مختلف چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص انتہائی نیک ہو‘ وہ امارت وسیادت کا بھی اتنا ہی اہل ہو‘ لہٰـذا آپ نے انہیں امارت سے منع فرمادیا۔ (۳) ’’سرپرست نہ بننا‘‘ کیونکہ جو شخص مطلقاً مال جمع رکھنے کا قائل نہ ہو‘ ممکن ہے وہ اسی جوش میں تیتیم کا مال بھی صدقہ کردے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔