سنن النسائي - حدیث 3696

كِتَابُ الْوَصَايَا ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى سُفْيَانَ حسن أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ سَقْيُ الْمَاءِ فَتِلْكَ سِقَايَةُ سَعْدٍ بِالْمَدِينَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3696

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل سفیان پر (واقع ہونے والے) اختلاف کا ذکر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئیں تو انہوثں نے رسول اللہﷺ سے کہا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ انہوں نے کہا: افضل صدقہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’پانی پلانا۔‘‘ اسی بنا پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں سبیل قائم کردی تھی (تاکہ مسافر وغیرہ کسی تنگی کے بغیر ہر وقت پانی پی سکیں)۔
تشریح : (۱) سبیل مخفف ہے فی سبیل اللہ سے۔ جہاں پانی کا ذخیرہ ہ واور وہ عام لوگوں کے لیے ہو‘اسے سبیل کہتے ہیں۔ (۲) ایصال ثواب یا اہدائے ثواب کے مسئلے میں بالعموم لوگ افراط وتفریط کا شکارہیں‘ ایک گروہ تو مطلقاً ایصال ثواب کا قائل نہیں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بہت عام کردیا ہے اور ہر طرح کی عبادات کا ثواب فوت شدگان کو پہنچانے کے قائل اور عامل ہیں‘ ہمارے نزدیک دونوں گروہ کا موقف صحیح نہیں ہے۔ اس کی عدم مشروعیت کے قائل منکرین حدیث ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے: {وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی } (النجم ۵۳:۳۹) ’’اور انسان ہی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی۔‘‘ یہ نص قرآن ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو روز قیامت اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے خود کیا ہوگا۔ اچھے عمل کی اچھی جزا اور برے عمل کی بری جزا۔ یہ نہیں ہوگا کہ براءیوں کے مرتکب شخص کی جزا، اس کے مرنے کے بعد‘ ایصال ثواب کی نیت سے کئے گئے عملوں سے تبدیل ہوجائے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اور اس کا یہ مفہوم بالکل صحیح ہے۔ لیکن قرآن کریم کے عموم کی تخصیص احادیث سے ثابت ہے‘ قرآن کے بہت سے عموم کی تخصیص یا اس کے اجمال کی تفصیل احادیث سے کی گئی ہے’ اس لیے دین وہ ہے جو دونوں کے مجموعے سے ثابت ہے‘ احادیث کو نظر انداز کرکے محض قرآن کے عموم یا اجمال سے کسی مئلے کا اثبات گمراہی ہے‘ اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قرآن کے زیر بحث عموم کو احادیث میں کس مخصوص کیا گیا ہے‘ وہ مخصوص یا مستثنیٰ چیزیں یقیناجائز اور مستحب بلکہ بعض حالات میں واجب ہوں گی۔ میت کے لیے دعا استغفار: ان میں ایک دعا واستغفار ہے‘ یعنی فوت شدگان کے لیے مغفرت اور رفع درجات کی دعا والتجا کرنا۔ یہ احادیث سے بلکہ خود قرآن سے بھی ثابت ہے‘ قرآن کریم میں والدین کے لیے مغفرت وطلب رحمت کی دعا سکھلائی گئی ہے: {رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا اَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا} (بنی اسرائیل۱۷: ۲۴) ’’اے اللہ ان پر اس طرح رحمت فرما‘ جیسے بچپن میں انہوں نے مجھے شفقت سے پالا۔‘‘ یہ دعا صرف زندگی ہی میں نہیں بلکہ جب تک انسان زندہ ہے‘ اسے حکم ہے کہ وہ والدین کے لیے یہ دعا کرتا رہے‘ اب اگر دعا کا فائدہ ہی میت کو نہ ہو تو اس دعا کے کرنے کا کیا مطلب؟ اگر فوت شدگان کے لیے دعا کی ا فادیت ہی نہ ہو تو قرآن کریم کا یہ حکم (نعوذ باللہ) عبث فعل قرارپائے گا۔ اسی طرح عام مومنوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم ہے: {رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ } (الحشر۵۹:۱۰) ’’اے اللہ ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی۔‘‘ اس میں تمام مومنین سابقین آگئے‘ جس میں زندہ مردہ سب شامل ہیں حتیٰ کہ صدیوں قبل کے فوت شدہ مسلمان بھی‘ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کی بابت فرمایا ہے کہ وہ اہل ایمان‘ ان کے آباء واجداد اور ان کی ازواج وذریات کے لیے مغفرت ورحمت اور دخول جنت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن۴۰:۷) فرشتوں کی یہ دعا صرف زندہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ ایمان پر مرنے والے سب مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ قرآن کریم کی مذکورہ اور دیگر بعض آیات سے واضح ہے کہ دعا کا فائدہ جس طرح زندہ کو پہنچتا ہے‘ اسی طرح مردہ کو پہنچتا ہے‘ اسی لی سب کے لیے بلا تخصیص دعا کرنے کا حکم ہے اور فرشتے بھی سب ہی کے لیے دعا کرتے ہیں نہ کہ صرف زندہ کے لیے۔ اور حدیث میں بھی نبیﷺ نے فوت شدگان کے لیے نہایت خلوص سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے‘ نماز جنازہ بجائے خود کیا ہے؟ یہ میت کے لیے مغفرت ہی کی دعا ہے۔ قبرستان جا کر جو دعا پڑھی جاتی ہے جس کے الفاظ نبیﷺ نے بیان فرمائے ہیں‘ اس میں بھی اپنے اور فوت شدگان کے لیے مغفرت‘ سلامتی اور عافیت کی دعا ہے‘ اگر دعا کا فائدہ فوت شدہ لوگوں کو نہ ہوتا تو نبیﷺ خود یہ دعائیں پڑھتے نہ اپنی امت کو پڑھنے کی تلقین فرماتے۔ اور اسی طرح نماز جنازہ پڑھنا بھی غیر ضروری ہوتا۔ علاوہ ازیں شفاعت سے بھی مومنوں کو قیامت کے دن فائدہ ہوگا جو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ یہ بھی از قبیل دعا ہی ہے‘ اس لیے فوت شدگان کے لیے دعائے مغفرت‘ ایک مفید عمل ہے۔ تاہم دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ دعا میں درج ذیل آداب وشرائط کو محوظ خاطر رکھا جائے: ٭ خلوص دل اور پوری توجہ اور نہایت الحاج وزاری سے دعا کی جائے۔ ٭ دعا کرنے والے کا ذریعئہ آمدن حلال ہو‘ اس کی کمائی حرام کی نہ ہو۔ ٭ دعا میں پہلے حمدوثنا اور درودوشریف کا اہتمام کیا جائے‘ وغیرہ۔ ٭ انسان کے اچھے یا برے عمل کا صلہ اور صدقات جاریہ: انسان سے زندگی میں ایسے کام کیے ہوں جن کے اثرات وفوائد اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہیں‘ ان فیوضات جارہ کا ثواب بھی اسے پہنچتا رہے گا‘ اسی طرح اگر ایسے برے کام کیے ہوں گے جو محض اس کی کوششوں کی وجہ سے جاری ہوئے ہوں گے تو ان کا گناہ بھی مسلسل اس کے مامئہ اعمال میں درج ہوتا رہے گا‘ جیسے حدیث میں ہے کہ جو بھی قتل ناحق ہوتا ہے تو قاتل کے ساتھ ساتھ اس کاگناہ آدم علیہ السلام کے بیٹے (قابیل) کو بھی ملتا ہے جس نے سب سے پہلے اپنے بھائی (ہابیل) کو ناحق قتل کرکے اس ظالمانہ رسم کا آغاز کیا۔ (صحیح البخاری‘ الدیات‘ باب: {وَمَنْ اَحْیَاھَا}‘ حدیث:۶۸۶۷) مشہور حدیث ہے: ]۔اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ: اِلاََّّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ‘ أَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ‘ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُولَہُ[ ’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے لیکن تین چیزیں جاری رہتی ہیں: ٭ صدقئہ جاریہ ٭ ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے ٭ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الوصیۃ‘ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ’ حدیث: ۱۶۳۱) اس حدیث کی بنیاد بھی یہی ہے کہ زندگی میں اس نے عمل کیے ہوں جس کا سلسلئہ فیض اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے تو اس کا اجر بھی اسے برابر ملتا رہے گا‘ صدقئہ جاریہ (مسجد ومدرسہ کی تعمیر‘ کنواں یا پانی کی سبیل یا پانی کی موٹر وغیرہ لگوانا) اس کا اپنا عمل ہے لیکن ایسا عمل جو مرنے کے ساتھ ہی ختم نہیںہوا بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ دینی علوم کی تعلیم وتدریس یا ان کی توضیح وتشریح اس کا اپنا عمل ہے‘ جبن تک اس کے شاگرد یا کتابیں موجو دہیں اور ان سے فیض یاب ہورہے ہوں گے‘ اسے اجروثواب ملتا رہے گا۔ اولاد کی صحیح تربیت کرکے انہیں صالح بنانا‘ اس کی کوششوں کا نتیجہ ہے‘ جب تک اس کی کاوشوں کی وجہ سے اولاد نیک رہے گی‘ نیکی کے کاموں میں حصہ لیتی رہے گی‘ اسے بھی اجروثواب ملے گا۔ اولاد کی بابت رسول اللہﷺ کا ایک فرمان بھی ہے‘ فرمایا: ]۔اِنَّ الاحکام‘ باب ماجاہ ان الوالد یاخد من مال ولدہ’ حدیث: ۱۳۵۸) اس لیے اولاد کی تمام نیکیوں کا اجر علی الاطلاق (ماں) باپ کو ملے گا‘ اولاد ان کے لیے دعا کرے یا نہ کرے۔ صحیح مسلم کی راویت میں ’’دعا کرے‘‘ کے الفاظ ترغیب کے لیے ہیں‘ شرط کے طور پر نہیں۔ سنن ابن ماجہ کی درج ذیل حدیث سے مذکورہ امور کی مزید وضاحت ہوتی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کو اس کی موت کے بعد اس کے اعمال اور احسانات کا جو صلہ ملتا ہے ان میں: ٭وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو سکھلایا اور اسے پھیلایا۔ ٭وہ نیک اولاد جو چھوڑ گیا۔ ٭قرآن پاک کا نسخہ کسی کو (پڑھنے کے لیے) دے گیا۔ ٭کوئی مسجد بناگیا٭کوئی مسافر خانہ تعمیر کیا گیا۔ ٭کوئی نہر کھدواگیا۔ ٭صدقہ جو اس نے اپنی زندگی اور صحت میں دیا۔ یہ بھی اس کو اس کی موت کے بعد اس کو ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب ثواب معلم الناس الخیر‘ حدیث: ۲۴۲) ٭صدقہ وخیرات کرنا: مرنے کے بعد اس کے اقارب کی طرف سے ایصال ثوب کی نیت سے صدقہ و خیرات کرنا‘ اس میں اگرچہ مرنے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن چونکہ یہ احادیث سے ثابت ہے‘ اس لیے ایصال ثواب کا یہ طریقہ بھی جائز اور مشروع ہے۔ اس میں بعض علماء نے اقارب یا صرف وارث کی شرط عائد کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ موقف زیادہ صحیح اور قرآن کریم کے بیان کردہ اصول: {وَانْ لَّیَس لِلاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی} کے مطابق ہے۔ اور اولاد حدیث کی رو سے انسان کی اپنی کمائی (کسب وسعی) ہے۔ علاوہ ازیں احادیث میں جو واقعات بیان ہو ئے ہیں‘ وہ بھی قریبی رشتے داروں ہی کے ہیں اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ مرنے والے کے لیے صدقہ وخیرات کا اہتمام بالعموم اقرباء ہی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں‘ اس لیے اولاد میں سے جو بھی کسی میت کے ایصال ثوان کے لیے کوئی صدقہ کرے گا‘ میت کو اس کا ثواب پہنچے گا (بشرطیکہ حلال وطیب مال سے ہو اور عنداللہ قبول ہوجائے)‘ تاہم تیجہ‘ ساتوں‘ دسواں یا چہلم وغیرہ کا ثواب نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ بدعات ہیں جو ہندؤوں کی نقالی ہیں مسلمانوں نے اپنائی ہوئی ہیں اور ان میںرشتے داروں کی ہی لذت کام ودہن کا سامان ہے‘ صدقہ وخیرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٭صدقے کا مطلب: صدقہ‘ اللہ کی رضا کے لیے بغیر کسی دن کی تعین کے‘ غرباء ومساکین کی ضروریات کو پورا کرنے کا نام ہے‘ انہیں اگر کھانے کی ضرورت ہے تو انہیں کھانا مہیا کیا جائے‘ لباس کی ضرورت ہے تو ان کی تن پوشی کا اہتمام کیا جائے‘ وہ علاج کی ضرورت مند ہیں تو ان کے لیے دوا دارو کا انتظام کیا جائے‘ انہیں دشادی کی ضرورت ہے تو اس میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے‘ کاروباری مشکلات ہیں تو ان میں ان کو سہارا دیں‘ دین کی نشرواشاعت میں حصہ لیا جائے وغیرہ۔ ٭میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا مسئلہ: روزہ رکھنے کی روایات دوطرح سے مروی ہیں‘ ایک میں مطلقاً روزے کی بنابت سوال کیا گیا‘ پوچھنے والے نے پوچھا کہ میت کے ذریعے ایک مہینے یا پندرہ دن کے روزے ہیں؟ کیا وہ رکھے جائیں؟ نبیﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہوتا تو ہم ادا کرتے؟‘‘ ا س نے کہا: ہاں‘ تو آپ نے فرمایا: ’’میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو یہ اللہ کا قرض ہیں‘ انہیں ادا کرنا دنیاوی قرـضوں سے زیادہ اہم ہے۔ ’’اور بعضـ روایات میں ہے کہ میت کے نذر کے روزے ہیں۔ آپ نے انہیں پورا کرنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح البخاری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم‘ حدیث: ۱۹۵۲‘ ۱۹۵۳‘ وصحیح مسلم‘ الصیام‘ باب قضاء الصوم عن ا لمیت‘ حدیث: ۱۱۴۷،۱۱۴۸) بعض علماء نے ان احادیث کی بنا پر میت کی طرف سے اس کے قضا شدہ یا نذر کے روزے رکھنے کا جواز تسلیم کیا ہے اور بعض علماء کے خیال میں اس سے مراد صرف نذر کے روزوں کی قضا ہے‘ یعنی انہوں نے روزوں کی قضا سے متعلق روایت کو نذر کی صراحت والی روایت کے ساتھ خاص کردیا ہے‘ چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ حضرت عائشہؓ سے مروی روایت: ]مَنْ مَّاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ، صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہٗ[ ’’جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں‘ تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم‘ حدیث: ۱۹۵۲) اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں: ]وَالْأَرْجَعُ أَنَّ ذٰالِکَ فِي صَوْمِ النَّذْرِ، وَأَمَّا صَوْمُ رَمَضَانَ فَلاَ[ ’’زیادہ راجح بات یہ ہے کہ قضا کا یہ حکم نذر کے روزوں سے متعلق ہے نہ کہ رمضان کے روزوں سے۔ (تعلیقات ریاض الصالحین‘ ص:۶۲۷) شیخ البانی رحمہ اللہ کا یہ موقف زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ روزہ بدنی عبادت ہے‘ اس میں نیابت جائز نہیں‘ جب زندگی میں نیابات کی گنجائش نہیں ہے تو مرنے کے بعد اس کا جواز کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس موقف کی بنیاد پر صرف نذر کے روزے میت کی طرف سے رکھنے جائز ہوں گے کیونکہ یہ نص تصریح (صحیح حدیث) سے ثابت ہیں۔ اور دوسرے علماء کے نزدیک قضا شدہ اور نذر‘ دونوں قسم کے روزے رکھنے جائز ہیں‘ تاہم ان کے نزدیک بھی صرف روزوں ہی کا جواز ہے‘ کوئی اور بدنی عبادت میت کی طرف سے جائز نہیں کی جاسکتی‘ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ]لِأَنَّ الْأَصْلَ عَدْمُ النِّیَابَۃِ في الْعِبَادَۃِ‘ وَلِأَنَّھَا عِبَادَۃٌ لاَ تَدْخُلُھَا النِّیَابَۃُ فِي الْحَیَاۃِ فَکَذٰالِکَ فِي الْمَوْتِ اِلَّا مَاوَرَدَفِیْہِ الدَّلِیلُ فَیُقْتَصَرُ عَلیٰ مَاوَرَدَ فِیْہِ وَیَبْقَی الْبَاقِي عَلَی الْأَصْلِ وَھٰذَا ھُوَ الرَّاجِحُ[ ’’بدنی عبادت میں اصل یہ ہے کہ اس میں نیابت نہیں ہوسکتی اور روزہ عبادت ہے‘ اس میں زندگی میں نیابت کی گنجائش نہیں ہے‘ اس طرح موت میں (مرنے کے بعد) بھی نہیں ہوسکتی‘ سوائے اس صورت کے جس کی بابت کوئی دلیل ہو‘ چنانچہ جس کی بابت دلیل وارد ہوگئی‘ نیابات اس صورت تک محدود ہوگی اور باقی عبادات اپنی اصل پر باقی رہیں گی (ان میں نیابت جائز نہیں ہوگی) یہی بات راجح ہے۔‘‘ (فتح الباری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم: ۴/ ۲۴۷‘ مطبوعۃ دارالسلام‘ الریاض) اس اصول کی رو سے میت کی طرف سے نذر کے روزے یا زیادہ سے زیادہ ا سکے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا جائز ہوگی‘ اس کے علاوہ میت کی طرف سے کوئی اور بدنی عبادت کرنی جائز نہیں ہوگی اور یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ چونکہ ایک عبادت کا میت کی طرف سے کرنا ثابت ہے ات ودوسری عبادات بھی اس کی وجہ سے صحیح ہوں گی۔ عبادت میں اس قسم کے قیاس کی گنجائش نہیں۔ عبادات توقیفی ہیں‘ یعنی شریعت کی طرف سے مقرر ہیں ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا جائزنہیں ہے۔ ملوحظہ:خیال رہے کہ روزے صرف اس کی طرف سے رکھنے ضروری ہوں گے جو قدرت رکھنے کے باوجود روزے نہ رکھ سکا ہو۔ اگر شدید بیماری کی وجہ سے کسی کے فرض روزے رہ گئے ہوں اور وہ اسی بیماری کی حالت میں فوت ہوجائے تو {لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} کے تحت اللہ ا س کو ویسے ہی معاف فرمادے گا۔ روزے اس کے ذمے مقصور ہی نہیں ہوں گے۔ (المحلیٰ لابن حزم‘ مسألۃ: ۷۷۶۱‘ حدیث: ۱/۳۹۸) ٭میت کی طرف سے حج کرنا: دوسری چیز جس کا ذکر حدیث میں ہے۔ میت کی طرف سے حج کرنے کا ہے‘ یعنی صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے حج نہیں کرسکا اور فوت ہوگیا یا اس نے حج کی نذر مانی تھی لیکن اس نے ابھی نذر پوری نہیں کی تھی کہ اس کا وقت آگیا‘ ان دونوں صورتوں میں میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے کیونکہ نبیﷺ نے اسے اللہ کا ایسا حق قرار دیا جس کا قرض کی طرح ادا کرنا ضروری ہے۔ ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی‘ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں‘ اس کی طرف سے حج کر۔ بھلا یہ بتلا اگر تیری ماں پر قرض کا بوجھ ہوتا تو کیا تو اسے اداکرتی؟ (اسی طرح) اللہ کا قرض ادا کرو‘ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا حق پورا کیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ جزاء الصید‘ باب الحج وانذور عن المیت… مع فتح الباری: ۴/۸۴) اسی طرح حدیث میں اس شخص کی طرف سے بھی حج کرنے کا حکم ہے جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود زیادہ بڑھاپے یا کسی اور عذر کی وجہ سے خود حج کرنے پر قادر نہ ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث مذکور کی شرح میںلکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمے حج کرنا ہو تو ا سے ادا کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ آدمی کا قرض اس کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری ہے‘ اسی طرح اور بھی قضا کے اعتبار سے جو اس کے مشابہ حق ہیں‘ (ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے) اور حج کے ساتھ ہر وہ حق بھی اس حکم میں شامل ہوگا جو مرنے والے کے ذمے ہو‘ جیسا کوئی کفارہ یا نذر یا زکاۃ وغیرہ۔‘‘ (فتح الباری: ۴/۸۵) حج ایسی عبادت ہے جو بدنی کے ساتھ ساتھ مالی عبادت بھی ہے‘ اسی طرح کفارہ اور زکاۃ بھی اسی قبیل سے ہے‘ یہ مالی عبادات اگر میت کے ذمے ہوں تو ان کا ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ احادیث میں اس کی صراحت آگئی ہے‘ تاہم ان کے علاوہ کسی اورعبادت کا میت کی طرف سے کرنا جائز نہیں ہوگا۔ روزے اور حج کی بابت مذکورہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس کے ذمے یہ فرائض رہ گئے ہوں‘ یعنی وہ اپنی زندگی میں کسی معقول وجہ سے ادا نہ کرسکا ہو۔ روزے (نذر یا بقول بعض علماء رمضان کے) رہ گئے‘ صحت مند یا قادر ہونے کے باوجود اس نے نہیں رکھے تو ان کا ادا کرنا ورثاء کے لیے ضروری ہوگا۔ اس سے ایک تو یہ اصول معلوم ہوا کہ میت کے ذمے کوئی فرض رہ جائے تو وہ اللہ کا ایک قرض ہے جس کی ادائیگی کا اہتمام (دوسرے قرضوں کی طرح) کیا جانا چاہیے‘ چنانچہ حافظ ابن حزم نے اسی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کسی نے اعتکاف کی نذر مانی تھی‘ لیکن وہ نذر پوری کرنے سے قبل ہی فوت ہوگیا‘ تو اس کی طرف سے اس نذر کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ (المحلی‘ کتاب الاعتکاف مسئلہ۶۳۵) بلکہ ہر نذر طاعت کا پورا کرنا ضروری ہے (حوالئہ مذکور) اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کسی شخص کی نماز بھول جانے یا نیند کی وجہ سے رہ گئی اور وہ اسے نہیں پڑھ سکا اور اسے موت آگئی تو یہ نماز بھی اس کے ذمے اللہ کا قرض ہے جس کی ادائیگی کے ورثاء مکلف ہیں۔ (المحلیٰ‘ کتاب الصیام‘ مسئلہ: ۷۷۵) تاہم نیابت کے مذکورہ اصول کی رو سے ورثاء کی یہ ذمہ داری نہیں‘ البتہ کفارہ اور مالی واجبات‘ زکاۃ وغیرہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ دوسرا اصول یہ معلوم ہوا کہ جس کے ذمے شرعاً کوئی حق واجب نہ ہو تو ورثاء اس کی ادائیگی کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ جیسے ایک شخص غربت میں فوت ہوگیا‘ اس پر حج فرض ہی نہیں ہوا تو اس کے ورثاء صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اس کی طرف سے حج کرنے کے مکلف نہیں ہیں‘ تاہم ایصال ثواب کے نقطئہ نظر سے حج کرنا صحیح ہے۔ یا نہیں؟ تو اس کی گنجائش ابوداود کی ایک حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو آگے آرہی ہے۔ ٭میت کی طرف سے قربانی کرنا: میت کی طرف سے ایصال ثواب کے لیے قربانی کرنا کیسا ہے؟ اس میں علماء کی دورائے ہیں‘ ایک رائے یہ ہے کہ یہ بھی چونکہ صدقے کی ایک صورت ہے اور میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا ثبوت موجود ہے‘ اس لیے یہ جائز ہے۔ اسی لیے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے کی گئی قربانی کا سارا گوشت غرباء مساکین ہی میں تقسیم کیا جائے اور اس میں سے کوئی حصہ اپنے لیے اور نہ رکھے‘ جیسے قربانی کے گوشت میں ہوتا ہے کہ انسان کچھ اپنے لیے رکھ لیتا ہے اور کچھ رشتے داروں اور ضروت مندوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اور دوسری رائے یہ ہے کہ فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ وہ روایت بھی سنداً ثابت نہیں ہے۔ جس میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ دو جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے‘ ایک اپنی طرف سے اور دوسری رسول اللہﷺ کی طرف سے‘ البتہ خود رسول اللہﷺ کا یہ عمل صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے جو قربانی کی وہ آپ نے اپنی اور اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے اور بعض روایات میں دوجانور قربان کرنے کا ذکر ہے‘ ایک اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے غیر مستطیع لوگوں کی طرف سے لیکن علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ نبیﷺ کا یہ فعل آپ کی خصوصیات میں سے ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔ حافظ ابن حجر وغیرہ اسی بات کے قائل ہیں۔ محدث عصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’احادیث میں جو آیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے قربانی کی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے تو یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۹/۵۱۴) میں اہل علم سے نقل کیا ہے۔ اور یہی صحیح بات ہے‘ اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نبیﷺ کی اقتدار میں امت کی طرف سے قربانی کرے‘ زیادہ لائق بات یہی ہے کہ اس قربانی پر دوسری عبادات کا قیاس نہ کیا جائے‘ جیسے نماز‘ روزہ‘ تلاوت اور جیسی دیگر طاعات ہیں کیونکہ نبیﷺ سے اس کی بابت کوئی چیز منقول نہیں‘ لہٰذا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز پڑھے نہ کوئی کسی اور کی طرف سے روزہ رکھے نہ کوئی کسی دوسرے شخص کی طرف سے قرآن پڑھے‘ اور اس کی اصل قرآن کی یہ آیت ہے کہ ’’انسان کو اسی کی جزا ملے گی جس کی اس نے کوشش کی ہوگی۔‘‘ تاہم اس اصل سے وہ امور مستثنیٰ ہیں جن کی بابت نص میں صراحت آگئی ہے۔ (ارواء الغلیل: ۴/۳۵۴) ٭میت کے لیے قرآن خوانی: اب رہ گیا مسئلہ قرآن خوانی کا کہ اس طرح ایصال ثواب صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا جواب مذکورہ دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ قرآن خوانی بدنی عبادت ہے‘ جیسے نماز‘ روزہ بدنی عبادات ہیں‘ اور عبادات‘ بالخصوص بدنی عبادات ایک دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کی جاسکتیں۔ کوئی شخص نماز پڑھ کر‘ روزہ رکھ کر کسی فوت شدہ کو ثواب نہیں پہنچاسکتا‘ اس لیے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے‘ محض ہمارے مفروضے پر کسی کو ثواب نہیں پہنچ سکتا‘ فوت شدہ کے ذمے کچھ فرائض رہ گئے ہوں تو ان کو نیابتاً ادا کرنا اور بات ہے۔ اگر اس کی ادائیگی کے لیے شرعی دلیل موجود ہے تو ان کا ادا کرنا صحیح ہوگا (جیسا کہ پہلے تفصیل گزری) لیکن محض اپنی طرف سے نیکی کے کچھ کام کرکے کسی فوت شدہ کو اس کا ثواب پہنچانا‘ ایک الگ صورت ہے‘ اس کے لیے شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں {وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّامَاسَعٰی} کے خلاف ہیں‘ لیکن پہلی صورت کو چونکہ احادیث نے اس عموم سے مستثنیٰ کردیا ہے‘ اس لیے ان کے جواز اور بعض دفعہ وجوب میں کوئی شک نہیں‘ لیکن دوسری صورت اس قرآنی عموم کی رو سے ممنوع ہوگی‘ جب تک کہ اس کے لیے کوئی صحیح دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ اور قرآن خوانی کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور قیاس سے کسی ملتی جلتی شکل کا حکم تو معلوم کیا جاسکتا ہے لیکن عبادات میں قیاس کرکے اپنے طور پر کسی کام کو ثواب کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتا‘ قرآن خوانی کی حیثیت ایسی ہی ہے‘ اسے لوگوں نے اپنے طور پر مردوں کے لیے ثواب رسانی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے‘ کسی شرعی دلیل سے اس کا اثبات نہیں ہوتا یا پھر بعض عبادات پر انہوں نے قیاس کیا ہے حالانکہ عبادات میں قیاس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ قرآن خوانی کی رسم قوم کو بے عمل اور بدعمل بنانے کی ایک بری بنیاد ہے۔ قرآن خوانی کی رسم ایک تو اس لیے صحیح نہیں ہے کہ دلائل شرعیہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ خیر القرون (عہد رسالت‘ عہد صحابہ وتابعین) میں ا س کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔ اگر یہ کارِ خیر یا ایک جائز عمل ہوتا تو صحابہ وتابعین بھی اسے ضرور کرتے۔ اگر انہوں نے نہیں کیا اور یقینا نہیں کیا تو اسے کسی لحاظ سے بھی مستحسن اور جائز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ رسم قوم کو بے عمل ور بدعمل بنانے کی ایک سازش ہے‘ جب ایک شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد لوگ مجھے قرآن پڑھ پڑھ کر بخشیں گے جس سے میری نجات ہوجائے گی تو ظاہر بات ہے کہ وہ زندگی میں احکام وفرائض اسلام کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھے گا‘ ساری زندگی قرآنی اصولوں کے خلاف گزارے گا‘ نماز‘ روزوں کا اہتمام اور اسلام کے حلال وحرام کے درمیان تمیز ہی نہیں کرے گا۔ کیا واقعی قرآن کریم مردے بخشوانے ہی کے لیے نازل ہواتھا؟ زندوں کی رہنمائی کے لیے نازل نہیں ہوا تھا؟ قابل غور امر یہ ہے کہ زندگی گزاری، اب مرنے کے بعد اس کے لیے قرآن خوانی کیا واقعی منفعت بخش ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر قرآن کریم پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہر بے عمل اور بدل مسلمان کو مرنے کے بعد دوچار چھ قرآن پڑھ کر بخش دو۔ بس اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔ آہ فلیبک علی الاسلام من کان باکیا بخشش کا کتنا آسان نسخ ہے جو عقل وقیاس کی بنیاد پر گھڑ لیا گیا ہے۔ مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ بعض ضعیف احادیث سے استدلال: دار قطنی کی دوروایات سے استدلال کرکے ہر قسم کی عبادات کا ثواب بخشنے کا جواز ثابت کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہیں: ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺسے عرض کیا کہ میں اپنے والد کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں‘ ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں؟ فرمایا: ’’یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھے۔‘‘ ایک دوسری روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا قبرستان پر گزر ہوا اور وہ گیارہ مرتبہ {قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ} پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بحش دے تو جتنے مردے ہیں‘ اتنا اجر اسے عطا کردیا جائے گا۔‘‘ (تھیم القرآن:۵/۲۱۶) لیکن یہ دونوں روایات سنداً ضعیف ہی نہیں‘ من گھڑت ہیں‘ علاوہ ازیں سنن دار قطنی میں یہ روایات ہمیں نہیں ملیں‘ اس لیے ان سے استدلال صحیح نہیں۔ اس طرح کی بعض روایات بھی بیان کی جاتی ہیں لیکن وہ بھی سخت ضعیف ہونے کی بنا پر ناقابل استدلال ہیں۔ مزید دیکھئے: (أحکام الجنائز الألبانی‘ ص:۲۴۵) ٭ ایصال ثواب کی تین صورتوں کا جواز: البتہ اس ضمن میں ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے دادا عاص بن وائل نے زمانئہ جاہلیت میں سواونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی‘ ان کے چچا ہشام بن عاص نے ان کی وفات کے بعد اپنے حصے کے پچاس اونٹ (اپنے باپ کی طرف سے) ذبح کردیے۔ حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ (عاص کے دوسرے بیٹے) نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو‘ یا صدقہ کرو‘ وہ ان کے لیے نافع ہوگا۔‘‘ (تفھیم القرآن:۵/۶۲۱) یہ روایت مسند احمد کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ اور سنن ابوداود میں بھی موجود ہے۔ (سنن ابي داود‘ الوصایا‘ باب ماجاء في وصیۃ الحربي یسلم ولیہ‘ أیلزمہ أن ینفذھا‘ حدیث: ۲۸۸۳) ابوداود میں ہے کہ سوگردنیں آزاد کرنے کی انہوں نے وصیت کی تھی‘ چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد ان کے ایک بیٹے ہشام نے پچاس گردنیں آزاد کردیں اور دوسرے بیٹے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے بعد باقی پچاس گردنیں آزادکرنے کا ارادہ کرلیا تو انہوں اس کی بابت رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے باپ نے اسلام قبول کرلیا تھا تو تم اس کی طرف سے جو غلام آزاد کروگے یا صدقہ کروگے‘ یا حج کروگے‘ تو وہ اسے پہنچے گا۔‘‘ یہ روایت عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے جس کی صحت کے بارے میں محدثین کے درمیان اختلاف ہے‘ تاہم اکثر محدثین نے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے‘ اس لیے یہ روایت تو یقینا قابل استدلال ہے لیکن اس سے صرف وہی امور ثابت ہوں گے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ اور وہ تین ہیں غلام آزاد کرنا‘ صدقہ کرنا اور حج کرنا۔ روزوں کا ذکر اس میں نہیں ہے اور یہ تینوں چیزیں مالی عبادات سے تعلق رکھتی ہیں جن کی اجازت صدقہ کرنے والی روایات سے بھی نکلتی ہے‘ علاوہ ازیں روایت میں صراحت ہے کہ نبیﷺ نے ان تینوں کاموں کی اجازت میت کے بیٹے کو دی‘ اس لیے اولاد کی طرف سے میت کے ایصال ثواب کے لیے یہ تینوں کام جائز ہوں گے۔ اس سے میت کی طرف سے ہر قسم کی عبادت کرنے کا جواز ثابت کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ عبادات توقیفی ہیں‘ ان میں قیاس ورائے کا دخل نہیں۔ ٭مروجہ قرآن خوانی کی قباحتیں: بہر حال قرآن خوانی کی رسم جو بہت عام ہوگئی ہے‘ اس کا جواز محل نظر ہی ہے‘ شرعی دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں اس کی اور بھی متعدد قباحتیں ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے اس اور اس کے سانچے میں اپنی زندگی ڈھالیں‘ اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل تیار کریں اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنائیں۔ لیکن ایک مسلمان قرآن کریم کو اپنا دستور حیات تو نہ بنائے۔ اس سے ہدایت ورہنمائی تو حاصل نہ کرے بلکہ ساری زندگی اس کے اصول وضوابط کو پامال کرتے ہوئے گزار دے لیکن مرنے کے بعد اسی قرآن کو کرئے پر پڑھوا کر اس کو نجات کا ذریعہ سمجھا جائے؟ یہ قرآن کریم کا احترام ہے یا اس کے ساتھ استہزاومذاق؟ اس طرح گویا قرآن کریم سے بے اعتنائی کا سبق دیا جاتا ہے‘ جب قرآن خوانی ہی کے ذریعے سے نجات ہو جائے گی تو پھر اس کے حلال وحرام کی پابندی کیا ضروری ہے؟ اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ قرآن خوانی کا رواج بالعموم انہی لوگوں میں زیادہ ہے جو زندگی میں قرآن کے احکام وقوانین کو ذرا اہمیت نہیں دیتے اور ساری زندگی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ قرآن کریم حیات بخش کتاب نہیں بلکہ مردہ بخش کتاب ہے‘ یہ زندوں کی رہنمائی کے لیے نہیں آئی بلکہ صرف مردے بخشوانے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ یوں قرآن خوانی کی رسم سے قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد لوگوں کے ذہنوں سے نکالا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ رسم مسلمانوں کو بے عمل اور بدعمل بننے ور بنانے کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے‘ اس کا نتیجہ ہی ا سکے غیر شرعی اور غیر صحیح ہونے کے لیے کافی ہے‘ تاہم مذکورہ دلائل سے بھی اس کا عدکم جواز واضح ہے۔ ٭ مذکورہ مباحث کا خلاصہ: بہر حال ایصال ثواب (فوت شدگان کو اجروثواب پہنچانے کی نیت سے بعض نیکی کے کام کرنا) تو احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے صرف وہی کام اسی حد تک مشروع (جائز) ہیں جس کی صراحت اجادیث میں ملتی ہے‘ جیسے نذر کے یا بقول بعض علماء رمضان المبارک کے روزے رہ گئے۔ یا صاحب استطاعت ہونے کے باوجود کوئی حج نہیں کرسکا‘ یا کسی اور نیکی کے کام کی نذر مانی لیکن پوری نہ کرسکا۔ یہ تمام اعمال مرنے والے کے ذمے باقی رہ گئے۔ ان کا میت کی طرف سے ادا کرنا اسی طرح ضروری ہے‘ جیسے ا س کے ذمے بندوں کا قرض ہو تو اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ ادائے فرض کی وہ صورتیں ہیں جو ادائے قرض کی طرح ہیں‘ ان کو اللہ کا قرض قراردیا گیا ہے‘ اس لیے ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ دوسری صورت ادائے فرض کی نہیں ہے۔ صرف میت کے ورثاء اپنے مرنے والے کو ثواب پہنچانا چاہتے ہیں جس کو ایصال ثواب کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے آپ نفلی نماز پڑھ کر‘ نفلی روزے رکھ کر ان کا ثاب میت کو نہیں پہنچاسکتے‘ اسی طرح قرآن خوانی کے ذریعے سے ثواب نہیں پہنچاسکتے کیونکہ ان کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے‘ البتہ میت کی طرف سے غلام آزاد کرکے صدقہ وخیرات کرکے اور حج کرکے ان کو ثواب پہنچاسکتے ہیں کیونکہ ان کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ اسی طرح مرحومین کے لیے دعائیں کی جاسکتی ہیں‘ اس سے بھی انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ ا سکا ہمیں زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔ اللھم ۔ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین۔ (۱) سبیل مخفف ہے فی سبیل اللہ سے۔ جہاں پانی کا ذخیرہ ہ واور وہ عام لوگوں کے لیے ہو‘اسے سبیل کہتے ہیں۔ (۲) ایصال ثواب یا اہدائے ثواب کے مسئلے میں بالعموم لوگ افراط وتفریط کا شکارہیں‘ ایک گروہ تو مطلقاً ایصال ثواب کا قائل نہیں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بہت عام کردیا ہے اور ہر طرح کی عبادات کا ثواب فوت شدگان کو پہنچانے کے قائل اور عامل ہیں‘ ہمارے نزدیک دونوں گروہ کا موقف صحیح نہیں ہے۔ اس کی عدم مشروعیت کے قائل منکرین حدیث ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے: {وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی } (النجم ۵۳:۳۹) ’’اور انسان ہی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی۔‘‘ یہ نص قرآن ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو روز قیامت اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے خود کیا ہوگا۔ اچھے عمل کی اچھی جزا اور برے عمل کی بری جزا۔ یہ نہیں ہوگا کہ براءیوں کے مرتکب شخص کی جزا، اس کے مرنے کے بعد‘ ایصال ثواب کی نیت سے کئے گئے عملوں سے تبدیل ہوجائے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اور اس کا یہ مفہوم بالکل صحیح ہے۔ لیکن قرآن کریم کے عموم کی تخصیص احادیث سے ثابت ہے‘ قرآن کے بہت سے عموم کی تخصیص یا اس کے اجمال کی تفصیل احادیث سے کی گئی ہے’ اس لیے دین وہ ہے جو دونوں کے مجموعے سے ثابت ہے‘ احادیث کو نظر انداز کرکے محض قرآن کے عموم یا اجمال سے کسی مئلے کا اثبات گمراہی ہے‘ اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قرآن کے زیر بحث عموم کو احادیث میں کس مخصوص کیا گیا ہے‘ وہ مخصوص یا مستثنیٰ چیزیں یقیناجائز اور مستحب بلکہ بعض حالات میں واجب ہوں گی۔ میت کے لیے دعا استغفار: ان میں ایک دعا واستغفار ہے‘ یعنی فوت شدگان کے لیے مغفرت اور رفع درجات کی دعا والتجا کرنا۔ یہ احادیث سے بلکہ خود قرآن سے بھی ثابت ہے‘ قرآن کریم میں والدین کے لیے مغفرت وطلب رحمت کی دعا سکھلائی گئی ہے: {رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا اَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا} (بنی اسرائیل۱۷: ۲۴) ’’اے اللہ ان پر اس طرح رحمت فرما‘ جیسے بچپن میں انہوں نے مجھے شفقت سے پالا۔‘‘ یہ دعا صرف زندگی ہی میں نہیں بلکہ جب تک انسان زندہ ہے‘ اسے حکم ہے کہ وہ والدین کے لیے یہ دعا کرتا رہے‘ اب اگر دعا کا فائدہ ہی میت کو نہ ہو تو اس دعا کے کرنے کا کیا مطلب؟ اگر فوت شدگان کے لیے دعا کی ا فادیت ہی نہ ہو تو قرآن کریم کا یہ حکم (نعوذ باللہ) عبث فعل قرارپائے گا۔ اسی طرح عام مومنوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم ہے: {رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ } (الحشر۵۹:۱۰) ’’اے اللہ ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی۔‘‘ اس میں تمام مومنین سابقین آگئے‘ جس میں زندہ مردہ سب شامل ہیں حتیٰ کہ صدیوں قبل کے فوت شدہ مسلمان بھی‘ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کی بابت فرمایا ہے کہ وہ اہل ایمان‘ ان کے آباء واجداد اور ان کی ازواج وذریات کے لیے مغفرت ورحمت اور دخول جنت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن۴۰:۷) فرشتوں کی یہ دعا صرف زندہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ ایمان پر مرنے والے سب مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ قرآن کریم کی مذکورہ اور دیگر بعض آیات سے واضح ہے کہ دعا کا فائدہ جس طرح زندہ کو پہنچتا ہے‘ اسی طرح مردہ کو پہنچتا ہے‘ اسی لی سب کے لیے بلا تخصیص دعا کرنے کا حکم ہے اور فرشتے بھی سب ہی کے لیے دعا کرتے ہیں نہ کہ صرف زندہ کے لیے۔ اور حدیث میں بھی نبیﷺ نے فوت شدگان کے لیے نہایت خلوص سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے‘ نماز جنازہ بجائے خود کیا ہے؟ یہ میت کے لیے مغفرت ہی کی دعا ہے۔ قبرستان جا کر جو دعا پڑھی جاتی ہے جس کے الفاظ نبیﷺ نے بیان فرمائے ہیں‘ اس میں بھی اپنے اور فوت شدگان کے لیے مغفرت‘ سلامتی اور عافیت کی دعا ہے‘ اگر دعا کا فائدہ فوت شدہ لوگوں کو نہ ہوتا تو نبیﷺ خود یہ دعائیں پڑھتے نہ اپنی امت کو پڑھنے کی تلقین فرماتے۔ اور اسی طرح نماز جنازہ پڑھنا بھی غیر ضروری ہوتا۔ علاوہ ازیں شفاعت سے بھی مومنوں کو قیامت کے دن فائدہ ہوگا جو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ یہ بھی از قبیل دعا ہی ہے‘ اس لیے فوت شدگان کے لیے دعائے مغفرت‘ ایک مفید عمل ہے۔ تاہم دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ دعا میں درج ذیل آداب وشرائط کو محوظ خاطر رکھا جائے: ٭ خلوص دل اور پوری توجہ اور نہایت الحاج وزاری سے دعا کی جائے۔ ٭ دعا کرنے والے کا ذریعئہ آمدن حلال ہو‘ اس کی کمائی حرام کی نہ ہو۔ ٭ دعا میں پہلے حمدوثنا اور درودوشریف کا اہتمام کیا جائے‘ وغیرہ۔ ٭ انسان کے اچھے یا برے عمل کا صلہ اور صدقات جاریہ: انسان سے زندگی میں ایسے کام کیے ہوں جن کے اثرات وفوائد اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہیں‘ ان فیوضات جارہ کا ثواب بھی اسے پہنچتا رہے گا‘ اسی طرح اگر ایسے برے کام کیے ہوں گے جو محض اس کی کوششوں کی وجہ سے جاری ہوئے ہوں گے تو ان کا گناہ بھی مسلسل اس کے مامئہ اعمال میں درج ہوتا رہے گا‘ جیسے حدیث میں ہے کہ جو بھی قتل ناحق ہوتا ہے تو قاتل کے ساتھ ساتھ اس کاگناہ آدم علیہ السلام کے بیٹے (قابیل) کو بھی ملتا ہے جس نے سب سے پہلے اپنے بھائی (ہابیل) کو ناحق قتل کرکے اس ظالمانہ رسم کا آغاز کیا۔ (صحیح البخاری‘ الدیات‘ باب: {وَمَنْ اَحْیَاھَا}‘ حدیث:۶۸۶۷) مشہور حدیث ہے: ]۔اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ: اِلاََّّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ‘ أَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ‘ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُولَہُ[ ’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے لیکن تین چیزیں جاری رہتی ہیں: ٭ صدقئہ جاریہ ٭ ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے ٭ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الوصیۃ‘ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ’ حدیث: ۱۶۳۱) اس حدیث کی بنیاد بھی یہی ہے کہ زندگی میں اس نے عمل کیے ہوں جس کا سلسلئہ فیض اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے تو اس کا اجر بھی اسے برابر ملتا رہے گا‘ صدقئہ جاریہ (مسجد ومدرسہ کی تعمیر‘ کنواں یا پانی کی سبیل یا پانی کی موٹر وغیرہ لگوانا) اس کا اپنا عمل ہے لیکن ایسا عمل جو مرنے کے ساتھ ہی ختم نہیںہوا بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ دینی علوم کی تعلیم وتدریس یا ان کی توضیح وتشریح اس کا اپنا عمل ہے‘ جبن تک اس کے شاگرد یا کتابیں موجو دہیں اور ان سے فیض یاب ہورہے ہوں گے‘ اسے اجروثواب ملتا رہے گا۔ اولاد کی صحیح تربیت کرکے انہیں صالح بنانا‘ اس کی کوششوں کا نتیجہ ہے‘ جب تک اس کی کاوشوں کی وجہ سے اولاد نیک رہے گی‘ نیکی کے کاموں میں حصہ لیتی رہے گی‘ اسے بھی اجروثواب ملے گا۔ اولاد کی بابت رسول اللہﷺ کا ایک فرمان بھی ہے‘ فرمایا: ]۔اِنَّ الاحکام‘ باب ماجاہ ان الوالد یاخد من مال ولدہ’ حدیث: ۱۳۵۸) اس لیے اولاد کی تمام نیکیوں کا اجر علی الاطلاق (ماں) باپ کو ملے گا‘ اولاد ان کے لیے دعا کرے یا نہ کرے۔ صحیح مسلم کی راویت میں ’’دعا کرے‘‘ کے الفاظ ترغیب کے لیے ہیں‘ شرط کے طور پر نہیں۔ سنن ابن ماجہ کی درج ذیل حدیث سے مذکورہ امور کی مزید وضاحت ہوتی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کو اس کی موت کے بعد اس کے اعمال اور احسانات کا جو صلہ ملتا ہے ان میں: ٭وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو سکھلایا اور اسے پھیلایا۔ ٭وہ نیک اولاد جو چھوڑ گیا۔ ٭قرآن پاک کا نسخہ کسی کو (پڑھنے کے لیے) دے گیا۔ ٭کوئی مسجد بناگیا٭کوئی مسافر خانہ تعمیر کیا گیا۔ ٭کوئی نہر کھدواگیا۔ ٭صدقہ جو اس نے اپنی زندگی اور صحت میں دیا۔ یہ بھی اس کو اس کی موت کے بعد اس کو ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب ثواب معلم الناس الخیر‘ حدیث: ۲۴۲) ٭صدقہ وخیرات کرنا: مرنے کے بعد اس کے اقارب کی طرف سے ایصال ثوب کی نیت سے صدقہ و خیرات کرنا‘ اس میں اگرچہ مرنے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن چونکہ یہ احادیث سے ثابت ہے‘ اس لیے ایصال ثواب کا یہ طریقہ بھی جائز اور مشروع ہے۔ اس میں بعض علماء نے اقارب یا صرف وارث کی شرط عائد کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ موقف زیادہ صحیح اور قرآن کریم کے بیان کردہ اصول: {وَانْ لَّیَس لِلاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی} کے مطابق ہے۔ اور اولاد حدیث کی رو سے انسان کی اپنی کمائی (کسب وسعی) ہے۔ علاوہ ازیں احادیث میں جو واقعات بیان ہو ئے ہیں‘ وہ بھی قریبی رشتے داروں ہی کے ہیں اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ مرنے والے کے لیے صدقہ وخیرات کا اہتمام بالعموم اقرباء ہی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں‘ اس لیے اولاد میں سے جو بھی کسی میت کے ایصال ثوان کے لیے کوئی صدقہ کرے گا‘ میت کو اس کا ثواب پہنچے گا (بشرطیکہ حلال وطیب مال سے ہو اور عنداللہ قبول ہوجائے)‘ تاہم تیجہ‘ ساتوں‘ دسواں یا چہلم وغیرہ کا ثواب نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ بدعات ہیں جو ہندؤوں کی نقالی ہیں مسلمانوں نے اپنائی ہوئی ہیں اور ان میںرشتے داروں کی ہی لذت کام ودہن کا سامان ہے‘ صدقہ وخیرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٭صدقے کا مطلب: صدقہ‘ اللہ کی رضا کے لیے بغیر کسی دن کی تعین کے‘ غرباء ومساکین کی ضروریات کو پورا کرنے کا نام ہے‘ انہیں اگر کھانے کی ضرورت ہے تو انہیں کھانا مہیا کیا جائے‘ لباس کی ضرورت ہے تو ان کی تن پوشی کا اہتمام کیا جائے‘ وہ علاج کی ضرورت مند ہیں تو ان کے لیے دوا دارو کا انتظام کیا جائے‘ انہیں دشادی کی ضرورت ہے تو اس میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے‘ کاروباری مشکلات ہیں تو ان میں ان کو سہارا دیں‘ دین کی نشرواشاعت میں حصہ لیا جائے وغیرہ۔ ٭میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا مسئلہ: روزہ رکھنے کی روایات دوطرح سے مروی ہیں‘ ایک میں مطلقاً روزے کی بنابت سوال کیا گیا‘ پوچھنے والے نے پوچھا کہ میت کے ذریعے ایک مہینے یا پندرہ دن کے روزے ہیں؟ کیا وہ رکھے جائیں؟ نبیﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہوتا تو ہم ادا کرتے؟‘‘ ا س نے کہا: ہاں‘ تو آپ نے فرمایا: ’’میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو یہ اللہ کا قرض ہیں‘ انہیں ادا کرنا دنیاوی قرـضوں سے زیادہ اہم ہے۔ ’’اور بعضـ روایات میں ہے کہ میت کے نذر کے روزے ہیں۔ آپ نے انہیں پورا کرنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح البخاری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم‘ حدیث: ۱۹۵۲‘ ۱۹۵۳‘ وصحیح مسلم‘ الصیام‘ باب قضاء الصوم عن ا لمیت‘ حدیث: ۱۱۴۷،۱۱۴۸) بعض علماء نے ان احادیث کی بنا پر میت کی طرف سے اس کے قضا شدہ یا نذر کے روزے رکھنے کا جواز تسلیم کیا ہے اور بعض علماء کے خیال میں اس سے مراد صرف نذر کے روزوں کی قضا ہے‘ یعنی انہوں نے روزوں کی قضا سے متعلق روایت کو نذر کی صراحت والی روایت کے ساتھ خاص کردیا ہے‘ چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ حضرت عائشہؓ سے مروی روایت: ]مَنْ مَّاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ، صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہٗ[ ’’جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں‘ تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم‘ حدیث: ۱۹۵۲) اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں: ]وَالْأَرْجَعُ أَنَّ ذٰالِکَ فِي صَوْمِ النَّذْرِ، وَأَمَّا صَوْمُ رَمَضَانَ فَلاَ[ ’’زیادہ راجح بات یہ ہے کہ قضا کا یہ حکم نذر کے روزوں سے متعلق ہے نہ کہ رمضان کے روزوں سے۔ (تعلیقات ریاض الصالحین‘ ص:۶۲۷) شیخ البانی رحمہ اللہ کا یہ موقف زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ روزہ بدنی عبادت ہے‘ اس میں نیابت جائز نہیں‘ جب زندگی میں نیابات کی گنجائش نہیں ہے تو مرنے کے بعد اس کا جواز کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس موقف کی بنیاد پر صرف نذر کے روزے میت کی طرف سے رکھنے جائز ہوں گے کیونکہ یہ نص تصریح (صحیح حدیث) سے ثابت ہیں۔ اور دوسرے علماء کے نزدیک قضا شدہ اور نذر‘ دونوں قسم کے روزے رکھنے جائز ہیں‘ تاہم ان کے نزدیک بھی صرف روزوں ہی کا جواز ہے‘ کوئی اور بدنی عبادت میت کی طرف سے جائز نہیں کی جاسکتی‘ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ]لِأَنَّ الْأَصْلَ عَدْمُ النِّیَابَۃِ في الْعِبَادَۃِ‘ وَلِأَنَّھَا عِبَادَۃٌ لاَ تَدْخُلُھَا النِّیَابَۃُ فِي الْحَیَاۃِ فَکَذٰالِکَ فِي الْمَوْتِ اِلَّا مَاوَرَدَفِیْہِ الدَّلِیلُ فَیُقْتَصَرُ عَلیٰ مَاوَرَدَ فِیْہِ وَیَبْقَی الْبَاقِي عَلَی الْأَصْلِ وَھٰذَا ھُوَ الرَّاجِحُ[ ’’بدنی عبادت میں اصل یہ ہے کہ اس میں نیابت نہیں ہوسکتی اور روزہ عبادت ہے‘ اس میں زندگی میں نیابت کی گنجائش نہیں ہے‘ اس طرح موت میں (مرنے کے بعد) بھی نہیں ہوسکتی‘ سوائے اس صورت کے جس کی بابت کوئی دلیل ہو‘ چنانچہ جس کی بابت دلیل وارد ہوگئی‘ نیابات اس صورت تک محدود ہوگی اور باقی عبادات اپنی اصل پر باقی رہیں گی (ان میں نیابت جائز نہیں ہوگی) یہی بات راجح ہے۔‘‘ (فتح الباری‘ الصوم‘ باب من مات وعلیہ صوم: ۴/ ۲۴۷‘ مطبوعۃ دارالسلام‘ الریاض) اس اصول کی رو سے میت کی طرف سے نذر کے روزے یا زیادہ سے زیادہ ا سکے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا جائز ہوگی‘ اس کے علاوہ میت کی طرف سے کوئی اور بدنی عبادت کرنی جائز نہیں ہوگی اور یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ چونکہ ایک عبادت کا میت کی طرف سے کرنا ثابت ہے ات ودوسری عبادات بھی اس کی وجہ سے صحیح ہوں گی۔ عبادت میں اس قسم کے قیاس کی گنجائش نہیں۔ عبادات توقیفی ہیں‘ یعنی شریعت کی طرف سے مقرر ہیں ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا جائزنہیں ہے۔ ملوحظہ:خیال رہے کہ روزے صرف اس کی طرف سے رکھنے ضروری ہوں گے جو قدرت رکھنے کے باوجود روزے نہ رکھ سکا ہو۔ اگر شدید بیماری کی وجہ سے کسی کے فرض روزے رہ گئے ہوں اور وہ اسی بیماری کی حالت میں فوت ہوجائے تو {لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} کے تحت اللہ ا س کو ویسے ہی معاف فرمادے گا۔ روزے اس کے ذمے مقصور ہی نہیں ہوں گے۔ (المحلیٰ لابن حزم‘ مسألۃ: ۷۷۶۱‘ حدیث: ۱/۳۹۸) ٭میت کی طرف سے حج کرنا: دوسری چیز جس کا ذکر حدیث میں ہے۔ میت کی طرف سے حج کرنے کا ہے‘ یعنی صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے حج نہیں کرسکا اور فوت ہوگیا یا اس نے حج کی نذر مانی تھی لیکن اس نے ابھی نذر پوری نہیں کی تھی کہ اس کا وقت آگیا‘ ان دونوں صورتوں میں میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے کیونکہ نبیﷺ نے اسے اللہ کا ایسا حق قرار دیا جس کا قرض کی طرح ادا کرنا ضروری ہے۔ ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی‘ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں‘ اس کی طرف سے حج کر۔ بھلا یہ بتلا اگر تیری ماں پر قرض کا بوجھ ہوتا تو کیا تو اسے اداکرتی؟ (اسی طرح) اللہ کا قرض ادا کرو‘ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا حق پورا کیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ جزاء الصید‘ باب الحج وانذور عن المیت… مع فتح الباری: ۴/۸۴) اسی طرح حدیث میں اس شخص کی طرف سے بھی حج کرنے کا حکم ہے جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود زیادہ بڑھاپے یا کسی اور عذر کی وجہ سے خود حج کرنے پر قادر نہ ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث مذکور کی شرح میںلکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمے حج کرنا ہو تو ا سے ادا کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ آدمی کا قرض اس کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری ہے‘ اسی طرح اور بھی قضا کے اعتبار سے جو اس کے مشابہ حق ہیں‘ (ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے) اور حج کے ساتھ ہر وہ حق بھی اس حکم میں شامل ہوگا جو مرنے والے کے ذمے ہو‘ جیسا کوئی کفارہ یا نذر یا زکاۃ وغیرہ۔‘‘ (فتح الباری: ۴/۸۵) حج ایسی عبادت ہے جو بدنی کے ساتھ ساتھ مالی عبادت بھی ہے‘ اسی طرح کفارہ اور زکاۃ بھی اسی قبیل سے ہے‘ یہ مالی عبادات اگر میت کے ذمے ہوں تو ان کا ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ احادیث میں اس کی صراحت آگئی ہے‘ تاہم ان کے علاوہ کسی اورعبادت کا میت کی طرف سے کرنا جائز نہیں ہوگا۔ روزے اور حج کی بابت مذکورہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس کے ذمے یہ فرائض رہ گئے ہوں‘ یعنی وہ اپنی زندگی میں کسی معقول وجہ سے ادا نہ کرسکا ہو۔ روزے (نذر یا بقول بعض علماء رمضان کے) رہ گئے‘ صحت مند یا قادر ہونے کے باوجود اس نے نہیں رکھے تو ان کا ادا کرنا ورثاء کے لیے ضروری ہوگا۔ اس سے ایک تو یہ اصول معلوم ہوا کہ میت کے ذمے کوئی فرض رہ جائے تو وہ اللہ کا ایک قرض ہے جس کی ادائیگی کا اہتمام (دوسرے قرضوں کی طرح) کیا جانا چاہیے‘ چنانچہ حافظ ابن حزم نے اسی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کسی نے اعتکاف کی نذر مانی تھی‘ لیکن وہ نذر پوری کرنے سے قبل ہی فوت ہوگیا‘ تو اس کی طرف سے اس نذر کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ (المحلی‘ کتاب الاعتکاف مسئلہ۶۳۵) بلکہ ہر نذر طاعت کا پورا کرنا ضروری ہے (حوالئہ مذکور) اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کسی شخص کی نماز بھول جانے یا نیند کی وجہ سے رہ گئی اور وہ اسے نہیں پڑھ سکا اور اسے موت آگئی تو یہ نماز بھی اس کے ذمے اللہ کا قرض ہے جس کی ادائیگی کے ورثاء مکلف ہیں۔ (المحلیٰ‘ کتاب الصیام‘ مسئلہ: ۷۷۵) تاہم نیابت کے مذکورہ اصول کی رو سے ورثاء کی یہ ذمہ داری نہیں‘ البتہ کفارہ اور مالی واجبات‘ زکاۃ وغیرہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ دوسرا اصول یہ معلوم ہوا کہ جس کے ذمے شرعاً کوئی حق واجب نہ ہو تو ورثاء اس کی ادائیگی کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ جیسے ایک شخص غربت میں فوت ہوگیا‘ اس پر حج فرض ہی نہیں ہوا تو اس کے ورثاء صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اس کی طرف سے حج کرنے کے مکلف نہیں ہیں‘ تاہم ایصال ثواب کے نقطئہ نظر سے حج کرنا صحیح ہے۔ یا نہیں؟ تو اس کی گنجائش ابوداود کی ایک حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو آگے آرہی ہے۔ ٭میت کی طرف سے قربانی کرنا: میت کی طرف سے ایصال ثواب کے لیے قربانی کرنا کیسا ہے؟ اس میں علماء کی دورائے ہیں‘ ایک رائے یہ ہے کہ یہ بھی چونکہ صدقے کی ایک صورت ہے اور میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا ثبوت موجود ہے‘ اس لیے یہ جائز ہے۔ اسی لیے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے کی گئی قربانی کا سارا گوشت غرباء مساکین ہی میں تقسیم کیا جائے اور اس میں سے کوئی حصہ اپنے لیے اور نہ رکھے‘ جیسے قربانی کے گوشت میں ہوتا ہے کہ انسان کچھ اپنے لیے رکھ لیتا ہے اور کچھ رشتے داروں اور ضروت مندوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اور دوسری رائے یہ ہے کہ فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ وہ روایت بھی سنداً ثابت نہیں ہے۔ جس میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ دو جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے‘ ایک اپنی طرف سے اور دوسری رسول اللہﷺ کی طرف سے‘ البتہ خود رسول اللہﷺ کا یہ عمل صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے جو قربانی کی وہ آپ نے اپنی اور اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے اور بعض روایات میں دوجانور قربان کرنے کا ذکر ہے‘ ایک اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے غیر مستطیع لوگوں کی طرف سے لیکن علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ نبیﷺ کا یہ فعل آپ کی خصوصیات میں سے ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔ حافظ ابن حجر وغیرہ اسی بات کے قائل ہیں۔ محدث عصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’احادیث میں جو آیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے قربانی کی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے تو یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۹/۵۱۴) میں اہل علم سے نقل کیا ہے۔ اور یہی صحیح بات ہے‘ اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نبیﷺ کی اقتدار میں امت کی طرف سے قربانی کرے‘ زیادہ لائق بات یہی ہے کہ اس قربانی پر دوسری عبادات کا قیاس نہ کیا جائے‘ جیسے نماز‘ روزہ‘ تلاوت اور جیسی دیگر طاعات ہیں کیونکہ نبیﷺ سے اس کی بابت کوئی چیز منقول نہیں‘ لہٰذا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز پڑھے نہ کوئی کسی اور کی طرف سے روزہ رکھے نہ کوئی کسی دوسرے شخص کی طرف سے قرآن پڑھے‘ اور اس کی اصل قرآن کی یہ آیت ہے کہ ’’انسان کو اسی کی جزا ملے گی جس کی اس نے کوشش کی ہوگی۔‘‘ تاہم اس اصل سے وہ امور مستثنیٰ ہیں جن کی بابت نص میں صراحت آگئی ہے۔ (ارواء الغلیل: ۴/۳۵۴) ٭میت کے لیے قرآن خوانی: اب رہ گیا مسئلہ قرآن خوانی کا کہ اس طرح ایصال ثواب صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا جواب مذکورہ دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ قرآن خوانی بدنی عبادت ہے‘ جیسے نماز‘ روزہ بدنی عبادات ہیں‘ اور عبادات‘ بالخصوص بدنی عبادات ایک دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کی جاسکتیں۔ کوئی شخص نماز پڑھ کر‘ روزہ رکھ کر کسی فوت شدہ کو ثواب نہیں پہنچاسکتا‘ اس لیے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے‘ محض ہمارے مفروضے پر کسی کو ثواب نہیں پہنچ سکتا‘ فوت شدہ کے ذمے کچھ فرائض رہ گئے ہوں تو ان کو نیابتاً ادا کرنا اور بات ہے۔ اگر اس کی ادائیگی کے لیے شرعی دلیل موجود ہے تو ان کا ادا کرنا صحیح ہوگا (جیسا کہ پہلے تفصیل گزری) لیکن محض اپنی طرف سے نیکی کے کچھ کام کرکے کسی فوت شدہ کو اس کا ثواب پہنچانا‘ ایک الگ صورت ہے‘ اس کے لیے شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں {وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّامَاسَعٰی} کے خلاف ہیں‘ لیکن پہلی صورت کو چونکہ احادیث نے اس عموم سے مستثنیٰ کردیا ہے‘ اس لیے ان کے جواز اور بعض دفعہ وجوب میں کوئی شک نہیں‘ لیکن دوسری صورت اس قرآنی عموم کی رو سے ممنوع ہوگی‘ جب تک کہ اس کے لیے کوئی صحیح دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ اور قرآن خوانی کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور قیاس سے کسی ملتی جلتی شکل کا حکم تو معلوم کیا جاسکتا ہے لیکن عبادات میں قیاس کرکے اپنے طور پر کسی کام کو ثواب کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتا‘ قرآن خوانی کی حیثیت ایسی ہی ہے‘ اسے لوگوں نے اپنے طور پر مردوں کے لیے ثواب رسانی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے‘ کسی شرعی دلیل سے اس کا اثبات نہیں ہوتا یا پھر بعض عبادات پر انہوں نے قیاس کیا ہے حالانکہ عبادات میں قیاس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ قرآن خوانی کی رسم قوم کو بے عمل اور بدعمل بنانے کی ایک بری بنیاد ہے۔ قرآن خوانی کی رسم ایک تو اس لیے صحیح نہیں ہے کہ دلائل شرعیہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ خیر القرون (عہد رسالت‘ عہد صحابہ وتابعین) میں ا س کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔ اگر یہ کارِ خیر یا ایک جائز عمل ہوتا تو صحابہ وتابعین بھی اسے ضرور کرتے۔ اگر انہوں نے نہیں کیا اور یقینا نہیں کیا تو اسے کسی لحاظ سے بھی مستحسن اور جائز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ رسم قوم کو بے عمل ور بدعمل بنانے کی ایک سازش ہے‘ جب ایک شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد لوگ مجھے قرآن پڑھ پڑھ کر بخشیں گے جس سے میری نجات ہوجائے گی تو ظاہر بات ہے کہ وہ زندگی میں احکام وفرائض اسلام کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھے گا‘ ساری زندگی قرآنی اصولوں کے خلاف گزارے گا‘ نماز‘ روزوں کا اہتمام اور اسلام کے حلال وحرام کے درمیان تمیز ہی نہیں کرے گا۔ کیا واقعی قرآن کریم مردے بخشوانے ہی کے لیے نازل ہواتھا؟ زندوں کی رہنمائی کے لیے نازل نہیں ہوا تھا؟ قابل غور امر یہ ہے کہ زندگی گزاری، اب مرنے کے بعد اس کے لیے قرآن خوانی کیا واقعی منفعت بخش ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر قرآن کریم پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہر بے عمل اور بدل مسلمان کو مرنے کے بعد دوچار چھ قرآن پڑھ کر بخش دو۔ بس اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔ آہ فلیبک علی الاسلام من کان باکیا بخشش کا کتنا آسان نسخ ہے جو عقل وقیاس کی بنیاد پر گھڑ لیا گیا ہے۔ مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ بعض ضعیف احادیث سے استدلال: دار قطنی کی دوروایات سے استدلال کرکے ہر قسم کی عبادات کا ثواب بخشنے کا جواز ثابت کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہیں: ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺسے عرض کیا کہ میں اپنے والد کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں‘ ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں؟ فرمایا: ’’یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھے۔‘‘ ایک دوسری روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا قبرستان پر گزر ہوا اور وہ گیارہ مرتبہ {قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ} پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بحش دے تو جتنے مردے ہیں‘ اتنا اجر اسے عطا کردیا جائے گا۔‘‘ (تھیم القرآن:۵/۲۱۶) لیکن یہ دونوں روایات سنداً ضعیف ہی نہیں‘ من گھڑت ہیں‘ علاوہ ازیں سنن دار قطنی میں یہ روایات ہمیں نہیں ملیں‘ اس لیے ان سے استدلال صحیح نہیں۔ اس طرح کی بعض روایات بھی بیان کی جاتی ہیں لیکن وہ بھی سخت ضعیف ہونے کی بنا پر ناقابل استدلال ہیں۔ مزید دیکھئے: (أحکام الجنائز الألبانی‘ ص:۲۴۵) ٭ ایصال ثواب کی تین صورتوں کا جواز: البتہ اس ضمن میں ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے دادا عاص بن وائل نے زمانئہ جاہلیت میں سواونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی‘ ان کے چچا ہشام بن عاص نے ان کی وفات کے بعد اپنے حصے کے پچاس اونٹ (اپنے باپ کی طرف سے) ذبح کردیے۔ حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ (عاص کے دوسرے بیٹے) نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو‘ یا صدقہ کرو‘ وہ ان کے لیے نافع ہوگا۔‘‘ (تفھیم القرآن:۵/۶۲۱) یہ روایت مسند احمد کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ اور سنن ابوداود میں بھی موجود ہے۔ (سنن ابي داود‘ الوصایا‘ باب ماجاء في وصیۃ الحربي یسلم ولیہ‘ أیلزمہ أن ینفذھا‘ حدیث: ۲۸۸۳) ابوداود میں ہے کہ سوگردنیں آزاد کرنے کی انہوں نے وصیت کی تھی‘ چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد ان کے ایک بیٹے ہشام نے پچاس گردنیں آزاد کردیں اور دوسرے بیٹے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے بعد باقی پچاس گردنیں آزادکرنے کا ارادہ کرلیا تو انہوں اس کی بابت رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے باپ نے اسلام قبول کرلیا تھا تو تم اس کی طرف سے جو غلام آزاد کروگے یا صدقہ کروگے‘ یا حج کروگے‘ تو وہ اسے پہنچے گا۔‘‘ یہ روایت عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے جس کی صحت کے بارے میں محدثین کے درمیان اختلاف ہے‘ تاہم اکثر محدثین نے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے‘ اس لیے یہ روایت تو یقینا قابل استدلال ہے لیکن اس سے صرف وہی امور ثابت ہوں گے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ اور وہ تین ہیں غلام آزاد کرنا‘ صدقہ کرنا اور حج کرنا۔ روزوں کا ذکر اس میں نہیں ہے اور یہ تینوں چیزیں مالی عبادات سے تعلق رکھتی ہیں جن کی اجازت صدقہ کرنے والی روایات سے بھی نکلتی ہے‘ علاوہ ازیں روایت میں صراحت ہے کہ نبیﷺ نے ان تینوں کاموں کی اجازت میت کے بیٹے کو دی‘ اس لیے اولاد کی طرف سے میت کے ایصال ثواب کے لیے یہ تینوں کام جائز ہوں گے۔ اس سے میت کی طرف سے ہر قسم کی عبادت کرنے کا جواز ثابت کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ عبادات توقیفی ہیں‘ ان میں قیاس ورائے کا دخل نہیں۔ ٭مروجہ قرآن خوانی کی قباحتیں: بہر حال قرآن خوانی کی رسم جو بہت عام ہوگئی ہے‘ اس کا جواز محل نظر ہی ہے‘ شرعی دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں اس کی اور بھی متعدد قباحتیں ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے اس اور اس کے سانچے میں اپنی زندگی ڈھالیں‘ اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل تیار کریں اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنائیں۔ لیکن ایک مسلمان قرآن کریم کو اپنا دستور حیات تو نہ بنائے۔ اس سے ہدایت ورہنمائی تو حاصل نہ کرے بلکہ ساری زندگی اس کے اصول وضوابط کو پامال کرتے ہوئے گزار دے لیکن مرنے کے بعد اسی قرآن کو کرئے پر پڑھوا کر اس کو نجات کا ذریعہ سمجھا جائے؟ یہ قرآن کریم کا احترام ہے یا اس کے ساتھ استہزاومذاق؟ اس طرح گویا قرآن کریم سے بے اعتنائی کا سبق دیا جاتا ہے‘ جب قرآن خوانی ہی کے ذریعے سے نجات ہو جائے گی تو پھر اس کے حلال وحرام کی پابندی کیا ضروری ہے؟ اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ قرآن خوانی کا رواج بالعموم انہی لوگوں میں زیادہ ہے جو زندگی میں قرآن کے احکام وقوانین کو ذرا اہمیت نہیں دیتے اور ساری زندگی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ قرآن کریم حیات بخش کتاب نہیں بلکہ مردہ بخش کتاب ہے‘ یہ زندوں کی رہنمائی کے لیے نہیں آئی بلکہ صرف مردے بخشوانے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ یوں قرآن خوانی کی رسم سے قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد لوگوں کے ذہنوں سے نکالا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ رسم مسلمانوں کو بے عمل اور بدعمل بننے ور بنانے کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے‘ اس کا نتیجہ ہی ا سکے غیر شرعی اور غیر صحیح ہونے کے لیے کافی ہے‘ تاہم مذکورہ دلائل سے بھی اس کا عدکم جواز واضح ہے۔ ٭ مذکورہ مباحث کا خلاصہ: بہر حال ایصال ثواب (فوت شدگان کو اجروثواب پہنچانے کی نیت سے بعض نیکی کے کام کرنا) تو احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے صرف وہی کام اسی حد تک مشروع (جائز) ہیں جس کی صراحت اجادیث میں ملتی ہے‘ جیسے نذر کے یا بقول بعض علماء رمضان المبارک کے روزے رہ گئے۔ یا صاحب استطاعت ہونے کے باوجود کوئی حج نہیں کرسکا‘ یا کسی اور نیکی کے کام کی نذر مانی لیکن پوری نہ کرسکا۔ یہ تمام اعمال مرنے والے کے ذمے باقی رہ گئے۔ ان کا میت کی طرف سے ادا کرنا اسی طرح ضروری ہے‘ جیسے ا س کے ذمے بندوں کا قرض ہو تو اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ ادائے فرض کی وہ صورتیں ہیں جو ادائے قرض کی طرح ہیں‘ ان کو اللہ کا قرض قراردیا گیا ہے‘ اس لیے ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ دوسری صورت ادائے فرض کی نہیں ہے۔ صرف میت کے ورثاء اپنے مرنے والے کو ثواب پہنچانا چاہتے ہیں جس کو ایصال ثواب کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے آپ نفلی نماز پڑھ کر‘ نفلی روزے رکھ کر ان کا ثاب میت کو نہیں پہنچاسکتے‘ اسی طرح قرآن خوانی کے ذریعے سے ثواب نہیں پہنچاسکتے کیونکہ ان کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے‘ البتہ میت کی طرف سے غلام آزاد کرکے صدقہ وخیرات کرکے اور حج کرکے ان کو ثواب پہنچاسکتے ہیں کیونکہ ان کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ اسی طرح مرحومین کے لیے دعائیں کی جاسکتی ہیں‘ اس سے بھی انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ ا سکا ہمیں زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔ اللھم ۔ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین۔