سنن النسائي - حدیث 3671

كِتَابُ الْوَصَايَا بَاب إِبْطَالِ الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3671

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں حضرت عمروبن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کاحق دے دیا ہے‘ لہٰذا اب وارث کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی۔‘‘
تشریح : ابتدائی دور میں اولاد وارث بنتی تھی۔ ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ ان کا حق مقرر نہیں تھا۔ اسی دور میں یہ آیت اتری: {کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ…بِالْمَعْرُوْف} ’’تم پر قرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میںسے کسی کی موت آنے لگے تو‘ اگر وہ مال چھوڑے جارہا ہے تو والدین رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نساء میں والدین‘ اولاد خاوند‘ بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے مقرر فرمادیے‘ لہٰذا اب وصیت کی ضرورت نہ رہی۔ شاذو نادر طور پر اگر کسی کے لواحقین میں کئی نادار شخص غیر وارث ہے تو وہ اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حد سے زائد کی وصیت کی جاسکتی ہے نہ کم کی۔ جو مقرر کردیا گیا ہے‘ وہی ملے گا۔ اس بات کو اس حدیث نے بیان کردیا۔ اب چاہے یوں کہہ لیں کہ اس حدیث نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور چاہے تو یوں کہہ لیں کہ پہلی آیت منسوخ تو مقررہ حصوں والی آیت نے کیا ہے لیکن نسخ کا بیان اس حدیث میں ہے۔ بہر حال مسئلہ متفق علیہ ہے کہ نہ وارث کا حصہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔ ابتدائی دور میں اولاد وارث بنتی تھی۔ ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ ان کا حق مقرر نہیں تھا۔ اسی دور میں یہ آیت اتری: {کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ…بِالْمَعْرُوْف} ’’تم پر قرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میںسے کسی کی موت آنے لگے تو‘ اگر وہ مال چھوڑے جارہا ہے تو والدین رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نساء میں والدین‘ اولاد خاوند‘ بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے مقرر فرمادیے‘ لہٰذا اب وصیت کی ضرورت نہ رہی۔ شاذو نادر طور پر اگر کسی کے لواحقین میں کئی نادار شخص غیر وارث ہے تو وہ اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حد سے زائد کی وصیت کی جاسکتی ہے نہ کم کی۔ جو مقرر کردیا گیا ہے‘ وہی ملے گا۔ اس بات کو اس حدیث نے بیان کردیا۔ اب چاہے یوں کہہ لیں کہ اس حدیث نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور چاہے تو یوں کہہ لیں کہ پہلی آیت منسوخ تو مقررہ حصوں والی آیت نے کیا ہے لیکن نسخ کا بیان اس حدیث میں ہے۔ بہر حال مسئلہ متفق علیہ ہے کہ نہ وارث کا حصہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔