سنن النسائي - حدیث 3666

كِتَابُ الْوَصَايَا بَاب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ صحيح أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ قَالَ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّمَا أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ادْعُ أَصْحَابَكَ فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَأَنَا رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3666

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل وصیت ایک تہائی مال میں ہوسکتی ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترجنگ احد کے دن شہید ہوگئے۔ چھ بیٹیاں اور اپنے ذمے بہت قرض چھوڑ گئے۔ جب کھجوروں کی کتائی کا وقت آیا تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ جانتے ہیں کہ میرے والد احد کی جنگ کے دن شہید ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ذمے کافی قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں (آپ تشریف لائیں تاکہ شاید ) قرض خواہ حضرات آپ کا لحاظ رکھیں (اور رعایت کردیں)۔ آپ نے فرمایا: ’’تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کے الگ الگ ڈھیر لگادو۔‘‘ میں ایسا کرنے کے بعد پھر آپ کو بلایا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ مجھ پر بہت بھڑکے۔ جب رسول اللہﷺ نے ان کے طرز عمل کو دیکھا تو آپ (اٹھے اور) سب سے بڑے ڈھیر کے گرد چکر لگانے لگے۔ تین چکر لگانے کے بعد آپ اس پر بیٹھ گئے‘ پھر فرمایا: ’’اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔‘‘ آپ ان سب کو ماپ ماپ کر دیتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کا سب قرض اتاردیا۔ میں تو اس بات پر بھی راضی تھا کہ میرے والد محترم کا قرض ادا ہوجائے‘ خواہ کچھ بھی باقی نہ رہے۔ (مگر قرض کی ادائیگی کے باوجود) ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔
تشریح : (۱) اس روایت کا مندجہ بالا باب سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ آئندہ باب سے تعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ بہت جگہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن طویل باب کے آخر میں ایک حدیث باب کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لاتے ہوں کہ نیا باب آرہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’چھ بیٹیاں‘‘ بعض روایات میں نو کا ذکر ہے۔ ممکن ہے تیسری شادی شدہ ہوں‘ اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چھ غیر شادی شدہ تھیں جن کی ذمہ داری حضرت جابر کے ذمے تھی۔ واللہ اعلم۔ (۳) ’’بھڑکے‘‘ دراصل وہ یہودی تھے اور یہودی انتہائی خودغرض، سنگ دل اور بے لحاظ قوم ہیں بلکہ ہر سود خور شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔ (۴) ’’چکر لگائے‘‘ برکت کے لیے کھجوروں کی مقدار کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے۔ (۵) ’’کم نہیں ہوئی‘‘ یہ نبیﷺ کی برکت تھی۔ (۶) حاکم کا اپنی رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود چل کرجانا اور ان کے حق میں سفارش کرنا تاکہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاسکے‘‘ مستحب عمل ہے۔ (۱) اس روایت کا مندجہ بالا باب سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ آئندہ باب سے تعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ بہت جگہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن طویل باب کے آخر میں ایک حدیث باب کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لاتے ہوں کہ نیا باب آرہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲) ’’چھ بیٹیاں‘‘ بعض روایات میں نو کا ذکر ہے۔ ممکن ہے تیسری شادی شدہ ہوں‘ اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چھ غیر شادی شدہ تھیں جن کی ذمہ داری حضرت جابر کے ذمے تھی۔ واللہ اعلم۔ (۳) ’’بھڑکے‘‘ دراصل وہ یہودی تھے اور یہودی انتہائی خودغرض، سنگ دل اور بے لحاظ قوم ہیں بلکہ ہر سود خور شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔ (۴) ’’چکر لگائے‘‘ برکت کے لیے کھجوروں کی مقدار کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے۔ (۵) ’’کم نہیں ہوئی‘‘ یہ نبیﷺ کی برکت تھی۔ (۶) حاکم کا اپنی رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود چل کرجانا اور ان کے حق میں سفارش کرنا تاکہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاسکے‘‘ مستحب عمل ہے۔