سنن النسائي - حدیث 3645

كِتَابُ الْوَصَايَا الْكَرَاهِيَةُ فِي تَأْخِيرِ الْوَصِيَّةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصَى فِيهِ أَنْ يَبِيتَ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3645

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل وصیت میں تاخیر مکروہ ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جومسلمان اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے دوراتیں بھی بغیر وصیت کے گزارنا جائز نہیں بلکہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے۔‘‘
تشریح : (۱) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دوراتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔ (۲) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے (۱) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دوراتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔ (۲) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے