سنن النسائي - حدیث 3639

كِتَابُ الْأَحْبَاسِ بَاب وَقْفِ الْمَسَاجِدِ صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ حِينَ حَصَرُوهُ فَقَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلًا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ الْجَبَلِ حِينَ اهْتَزَّ فَرَكَلَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ اسْكُنْ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ وَأَنَا مَعَهُ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلًا شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ يَقُولُ هَذِهِ يَدُ اللَّهِ وَهَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ يَقُولُ مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يَزِيدُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ فَاشْتَرَيْتُهُ مِنْ مَالِي فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلًا شَهِدَ رُومَةَ تُبَاعُ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ مَالِي فَأَبَحْتُهَا لِابْنِ السَّبِيلِ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3639

کتاب: وقف سے متعلق احکام و مسائل مساجد بھی وقف ہوتی ہیں حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (کے گھر) کا محاصرہ کرلیا اور انہیں (باہر نکلنے سے روک دیا) تو آپ نے ایک دفعہ دیوار کے اوپر سے انہیں جھانکا اور فرمایا: میں اس شخص سے گواہی کا مطالبہ کرتا ہوں جس نے رسول اللہﷺ کو پہاڑ والے دن جب اس نے حرکت کی تھی اور آپ نے اس پر اپنا پاؤں مارا تھا‘ یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’اے پہاڑ! سکون سے رہ۔ (اس وقت) تجھ پر نبی‘ صدیق اور دو شہیددوں کے علاوہ کوئی نہیں۔‘‘ اس وقت میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ بہت سے حاضرین نے اس کی گواہی دی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کی قسم دے کر اس شخص سے گواہی کا مطالبہ کرتا ہوں جس نے رسول اللہﷺکو بیعت الرضوان کے دن فرماتے سنا ہے: ’’یہ اللہ کا ہاتھ ہے۔ اور یہ عثمان کا۔‘‘ بہت سے لوگوں نے اس کی بھی گواہی دی‘ پھر فرمانے لگے: میں اللہ کی قسم دے کر اس شحص سے گواہی کا مطالبہ کرتا ہوں جس نے رسول اللہﷺ کو تنگی والے لشکر کے دن یہ فرماتے سنا ہے: آج کون شخص خرچ کرے گا جو یقینا قبول ہوگا؟‘‘ تو میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سازوسامان مہیا کیا۔ اس بات کی بھی بہت سے لوگوں نے گواہی دی‘ پھر حضرت عثمان نے فرمایا: میں اللہ کی قسم دیتا ہوں اس شخص کو جس نے سنا رسول اللہﷺ سے‘ آپ فرماتے تھے: ’’کون شخص ہے ایسا جو بڑھادے اس مسجد (نبوی) کو جنت کے گھر کے بدلے میں؟‘‘ پھر میں نے اس زمین کو اپنے مال سے خرید لیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس کی بھی گواہی دی‘ پھر فرمایا: میں اللہ کی قسم دے کر اس شخص سے گواہی کا مطالبہ کرتا ہوں جس نے بئررومہ کی فروخت کا واقعہ دیکھا ہے۔ میں نے اسے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لیے وقف کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی گواہی دی۔
تشریح : (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ان شواہد کو پیش کرنے سے مقصد کو ئی فخر یار یاکاری یا حصول تعریف نہیں تھا بلکہ اس نازک موقع پر ثابت فرمانا چاہتے تھے کہ میں حق پر ہوں اور باغنی باطل پر ہیں۔ ا س سلسلے میں رسول اللہﷺ کے فرامین واضح ہیں۔ مگر باغیوں پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ باطناً اسلام کے دشمن تھے اور خلافت کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ (۴) پہاڑ پر آپ کا پاؤں مارنا اور اس سے خطاب فرمانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی اعجازی شان کا اظہار ہے جس کا اصل مقصد ان حضرات کو ان کی منقبت وفضیلت سے آگاہ فرمانا تھا‘ نیز دنیا کے سامنیاعلان مقصود تھا۔ واللہ اعلم۔ (۳) ’’بیعت الرضوان‘‘ وہ بیعت ہے جس کے نتیجے میں بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوئی اور باقاعدہ قرآن مجید میں ا سکا اعلان ہوا۔ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے دورن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر پیش آیا۔ (۴) ’’یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا‘‘ چونکہ حضرت عثمان موقع پر موجود نہ تھے‘ نیز آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ عثمان زندہ ہیں‘ لہٰذا آپ نے ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے کو اللہ تعالیٰ کا کیونکہ یہ بیعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہورہی تھی۔ قرآن مجید میں بھی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَٓ یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ} (الفتح ۴۸: ۱۰) اس میں حضرت عثمان اور خود رسول اللہﷺ کی عظمت شان واضح طور پر نبمایا ہے۔ (۵) ’’نصف لشکر‘‘ گویا اس لشکر کی تیاری میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا جس کی تفصیل مذکو رنہیں۔ (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ان شواہد کو پیش کرنے سے مقصد کو ئی فخر یار یاکاری یا حصول تعریف نہیں تھا بلکہ اس نازک موقع پر ثابت فرمانا چاہتے تھے کہ میں حق پر ہوں اور باغنی باطل پر ہیں۔ ا س سلسلے میں رسول اللہﷺ کے فرامین واضح ہیں۔ مگر باغیوں پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ باطناً اسلام کے دشمن تھے اور خلافت کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ (۴) پہاڑ پر آپ کا پاؤں مارنا اور اس سے خطاب فرمانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی اعجازی شان کا اظہار ہے جس کا اصل مقصد ان حضرات کو ان کی منقبت وفضیلت سے آگاہ فرمانا تھا‘ نیز دنیا کے سامنیاعلان مقصود تھا۔ واللہ اعلم۔ (۳) ’’بیعت الرضوان‘‘ وہ بیعت ہے جس کے نتیجے میں بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوئی اور باقاعدہ قرآن مجید میں ا سکا اعلان ہوا۔ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے دورن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر پیش آیا۔ (۴) ’’یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا‘‘ چونکہ حضرت عثمان موقع پر موجود نہ تھے‘ نیز آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ عثمان زندہ ہیں‘ لہٰذا آپ نے ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے کو اللہ تعالیٰ کا کیونکہ یہ بیعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہورہی تھی۔ قرآن مجید میں بھی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَٓ یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ} (الفتح ۴۸: ۱۰) اس میں حضرت عثمان اور خود رسول اللہﷺ کی عظمت شان واضح طور پر نبمایا ہے۔ (۵) ’’نصف لشکر‘‘ گویا اس لشکر کی تیاری میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا جس کی تفصیل مذکو رنہیں۔