سنن النسائي - حدیث 3638

كِتَابُ الْأَحْبَاسِ بَاب وَقْفِ الْمَسَاجِدِ صحيح أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَبِالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلُ فِيهَا دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَجَعَلْتُ دَلْوِي فِيهَا مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْتُمْ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي مِنْ الشُّرْبِ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَزِدْتُهَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرٍ ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ فَرَكَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِهِ وَقَالَ اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَعْنِي أَنِّي شَهِيدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3638

کتاب: وقف سے متعلق احکام و مسائل مساجد بھی وقف ہوتی ہیں حضرت ثمامہ بن حزن قشیری سے منقول ہے کہ میں اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس موجود تھا جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیوار کے اوپر سے (محاصرہ کرنے والے باغیوں پر) جھانکا اور فرمانے لگے: میں تم سے اللہ کی قسم اور اسلام اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو بئر رومہ کے سوا وہاں میٹھا پانی نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی شحص بئررومہ خرید کر اپنا ڈول بھی دوسرے مسلمانوں کے ڈولوں کے برابر قراردے گا تو اسے اللہ تعالیٰ جنت میں اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔‘‘ میں نے اپنے خالص مال سے وہ کنواں خریدا اور میںنے اس میں اپنے ڈول کو عام مسلمانوں کے ڈولوں کے برابر ہی سمجھا‘ جبکہ آج تم نے مجھے اس سے پانی پینے سے روک رکھا ہے حتیٰ کہ میں سمندری پانی (جیسا نمکین پانی) پیتا ہوں؟ حاضرین نے کہا: ہاں‘ اللہ کی قسم! (یہ بات صحیح ہے)۔ حضرت عثمان نے فرمایا: میں تم سے اللہ کی قسم اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں! کیا تم جانتے ہو کہ میں نے (غزوئہ تبوک کا) تنکی والا لشکر اپنے مال سے تیار کیا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہاں۔ پھر فرمایا: میں تم سے اللہ کی قسم اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں‘ کیا تم جانتے ہو کہ مسجد نبوی نمازیوں کے لیے تنگ ہوگئی تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص فلاں خاندان کا احاطہ خرید کر مسجد میں اضافہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں اس سے بہتر دے گا۔‘‘ میں نے اپنے خالص مال سے وہ احاطہ خریدا اور مسجد میں اضافہ کردیا۔ آج تم نے مجھے اس مسجد میں دورکعت نماز پڑھنے سے روک رکھا ہے؟ حاضرین نے کہا: اللہ کی قسم! آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تم سے اللہ کی قسم اور اسلام کا واطہ دے کر پوچھتا ہوں‘ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ کے ثبیر پہاڑ پر تھے۔ آپ کے ساتھ حضرات ابوبکر وعمر اور میں بھی تھا۔ پہاڑ میں حرکت ہوئی تو رسول اللہﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مارا اور فرمایا: ’’اے ثبیر! سکون سے رہ۔ تجھ پر اس وقت ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید ہیں؟‘ حاضرین نے کہا: اللہ کی قسم! سچ ہے۔ آپ نے نعرئہ تکبیر بلند فرمایا اور کہا: رب کعبہ کی قسم! ان لوگوں (میرے مخالفین) نے میرے حق میں گواہی دے دی‘ انہوں نے میرے حق میں گواہی دی ہے کہ میں شہید ہوں گا۔
تشریح : (۱) ’’شہید ہوں گا‘‘ جبکہ یہ قطعی بات ہے کہ شہید مظلوم ہوتا ہے اور اس کے قاتل کم از کم ظالم ہوتے ہیں۔ گویا یہ خود گوہی دے رہے ہیں کہ ہم خلیفۃ المسلمین کو ظلماً قتل کریں گے۔ (۲) میٹھا پانی پینا زہد کے منافی نہیں بلکہ میٹھا پانی پینا اور اسے کسی سے طلب کرنا مباح ہے‘ نمکین یا کھارا پانی پینے می ںکوئی فضیلت نہیں جیسا کہ صوفیاء کا طریقہ ہے‘ نیز اس حدیث سے لذیذ کھانوں کے تناول کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (۳) ’’ثبیر‘‘ وہ پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ سے داخل ہوتے ہوئے دائیں طرف آتا ہے۔ اس روایت میں ’’ثبیر‘‘ کا ذکر ہے جبکہ مشہور روایت میں ’’احد پہاڑ‘‘ کا ذکر ہے اور بعض میں ’’حرائ‘‘ کا بھی ذکر ہے۔ ’’احد‘‘ کا احتمال زیادہ قوی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱) ’’شہید ہوں گا‘‘ جبکہ یہ قطعی بات ہے کہ شہید مظلوم ہوتا ہے اور اس کے قاتل کم از کم ظالم ہوتے ہیں۔ گویا یہ خود گوہی دے رہے ہیں کہ ہم خلیفۃ المسلمین کو ظلماً قتل کریں گے۔ (۲) میٹھا پانی پینا زہد کے منافی نہیں بلکہ میٹھا پانی پینا اور اسے کسی سے طلب کرنا مباح ہے‘ نمکین یا کھارا پانی پینے می ںکوئی فضیلت نہیں جیسا کہ صوفیاء کا طریقہ ہے‘ نیز اس حدیث سے لذیذ کھانوں کے تناول کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (۳) ’’ثبیر‘‘ وہ پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ سے داخل ہوتے ہوئے دائیں طرف آتا ہے۔ اس روایت میں ’’ثبیر‘‘ کا ذکر ہے جبکہ مشہور روایت میں ’’احد پہاڑ‘‘ کا ذکر ہے اور بعض میں ’’حرائ‘‘ کا بھی ذکر ہے۔ ’’احد‘‘ کا احتمال زیادہ قوی ہے۔ واللہ اعلم۔