سنن النسائي - حدیث 3632

كِتَابُ الْأَحْبَاسِ الْأَحْبَاسُ كَيْفَ يُكْتَبُ الْحَبْسُ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى ابْنِ عَوْنٍ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ إِنَّ رَبَّنَا لَيَسْأَلُنَا عَنْ أَمْوَالِنَا فَأُشْهِدُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي لِلَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ فِي حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3632

کتاب: وقف سے متعلق احکام و مسائل وقف کی دستاویز کیسے لکھی جائے؟ نیز ابن عمر کی حدیث کی بابت ابن عون پر اختللاف کا ذکر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ جب یہ آیت اتری: {لَنْ تَنَالُو الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} ’’تم ہر گز نیکی حاصل نہ کرسکو گے حتیٰ کہ وہ چیز خرچ کرو جسے تم بہت پسند کرتے ہو۔‘‘ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارا رب تعالیٰ ہم سے ہمارے مال طلب فرماتا ہے۔ اے اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے وقف کردی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے اپنے رشتے داروں حسان بن ثابت اور ابی کعب میں تقسیم کردو۔‘‘
تشریح : (۱) ’’اپنی زمین‘‘ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔ (۲) ’’تقسیم کردو‘‘ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنی میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ’’وقف‘‘ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔ (۳) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔ (۴) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بناسکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔ (۵) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرمﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔ (۱) ’’اپنی زمین‘‘ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔ (۲) ’’تقسیم کردو‘‘ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنی میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ’’وقف‘‘ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔ (۳) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔ (۴) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بناسکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔ (۵) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرمﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔