سنن النسائي - حدیث 3629

كِتَابُ الْأَحْبَاسِ الْأَحْبَاسُ كَيْفَ يُكْتَبُ الْحَبْسُ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى ابْنِ عَوْنٍ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي فَكَيْفَ تَأْمُرُ بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَى أَنْ لَا تُبَاعَ وَلَا تُوهَبَ وَلَا تُورَثَ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3629

کتاب: وقف سے متعلق احکام و مسائل وقف کی دستاویز کیسے لکھی جائے؟ نیز ابن عمر کی حدیث کی بابت ابن عون پر اختللاف کا ذکر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی۔ وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے ایسی زمین حاصل کی ہے کہ میرے خیال کے مطابق اس سے قیمتی اور عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (میرا خیال ہے کہ میں اسے صدقہ کردوں۔) آپ اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو اصل زمین کو وقف کردو اور اس کی آمدنی صدقہ کردو۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر اسے صدقہ (وقف) کردیا کہ اسے نہ تو بیچا جائے سکے گا‘ نہ کسی کو ہبہ کی جاسکے گی اور نہ اس میں وراثت چلے گی‘ البتہ اس کی آمدنی فقرا‘ رشتہ داروں‘ غلاموں (کی آزادی)‘ مجاہدین‘ مہمانوں اور مسافروں پر خرچ ہوگی۔ جو شخص اس کا ناظم بنے گا‘ وہ مناسب مقدار میں اس سے خود بھی کھا پی سکتا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا پلاسکتا ہے لیکن وہ اس سے مال جمع نہ کرے۔
تشریح : (۱) وقف پر زکاۃ کا حکم نہیں لگتا بلکہ جن کے لیے وقف ہوں‘ وہ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں‘ خواہ وہ امیر ہی ہوں۔ (۲) ’’رشتہ داروں‘‘ ممکن ہے اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار ہوں یا رسول اللہﷺ کے‘ یعنی اہل بیت۔ (۳) ’’ناظم‘‘ وقف کا ناظم اپنی ذمہ داریوں کے مطابق وقف سے تنخواہ لے سکتا ہے جسے حدیث میں لفظ ’’معروف‘‘ سے بیان کیا گیا ہے۔ ناظم کا ہاتھ وقف میں کھلا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بدعنوانی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ (۱) وقف پر زکاۃ کا حکم نہیں لگتا بلکہ جن کے لیے وقف ہوں‘ وہ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں‘ خواہ وہ امیر ہی ہوں۔ (۲) ’’رشتہ داروں‘‘ ممکن ہے اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار ہوں یا رسول اللہﷺ کے‘ یعنی اہل بیت۔ (۳) ’’ناظم‘‘ وقف کا ناظم اپنی ذمہ داریوں کے مطابق وقف سے تنخواہ لے سکتا ہے جسے حدیث میں لفظ ’’معروف‘‘ سے بیان کیا گیا ہے۔ ناظم کا ہاتھ وقف میں کھلا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بدعنوانی کا راستہ کھل سکتا ہے۔