سنن النسائي - حدیث 3623

كِتَابُ الْخَيْلِ وَالسَّبقِ وَالرَّمیِ بَاب سُهْمَانِ الْخَيْلِ حسن الإسناد قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَرْبَعَةَ أَسْهُمٍ سَهْمًا لِلزُّبَيْرِ وَسَهْمًا لِذِي الْقُرْبَى لِصَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُمِّ الزُّبَيْرِ وَسَهْمَيْنِ لِلْفَرَسِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3623

کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل مال غّنیمت میں) گھوڑے کے حصول کا بیان حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے جنگ خیبر میں والد محترم حضرت زینب بن عوام رضی اللہ عنہ کو چار حصے دیے تھے۔ ایک ان کا اپنا‘ دوسرا آپ کا رشتے دار ہونے کی وجہ سے کیونکہ عبدالمطلب کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیںاور باقی دوحصے گھوڑے کے۔
تشریح : (۱) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پھوپھی زد بھائی تھے۔ شریعت اسلامیہ نے رسول اللہﷺ کے رشتے داروں کے لیے خمس میں حق رکھا تھا تاکہ یہ ان کے لیے زکاۃ کا نعم البدل بن سکے‘ نیز آپ اپنے رشتہ داروں کو تحفے دے سکیں۔ یہ خمس (پانچواں حصہ) ہر غنیمت سے الگ نکال کر بیت المال میں رکھا جاتا تھا جسے آپ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ذات اقدس‘ اپنے رشتے داروں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی جنگی قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ﷺ۔ (۲) جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑے کو مال غنیمت میں سے دو حصے ملیں گے۔ آدمی کو ایک۔ گویا گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں گھوڑے کو انسان پر فضیلت نہیں دے سکتا‘ لہٰذا وہ گھوڑے کے لیے ایک حصے کے قائل ہیں‘ حالانکہ اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی گھوڑا انسان سے زیادہ کھاتا ہے تو کیا زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ افضل ہوگیا؟ گھوڑے کو دوحصے دینا اسی بنا پر ہے کہ اس پر خرچ زیادہ اٹھتا ہے‘ نیز وہ جنگ میں آدمی سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک سوار پیدل سے کئی گنا زیادہ مفید ہے اور یہ فرق صرف گھوڑے کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا انصاف یہی ہے کہ اس کا حصہ آدمی سے زیادہ رکھا جائے۔ احادیث اس بارے میں صریح ہیں۔ مبہم روایات پر محمول کیا جائے گا‘ نیز حدیث کے مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔ (۱) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پھوپھی زد بھائی تھے۔ شریعت اسلامیہ نے رسول اللہﷺ کے رشتے داروں کے لیے خمس میں حق رکھا تھا تاکہ یہ ان کے لیے زکاۃ کا نعم البدل بن سکے‘ نیز آپ اپنے رشتہ داروں کو تحفے دے سکیں۔ یہ خمس (پانچواں حصہ) ہر غنیمت سے الگ نکال کر بیت المال میں رکھا جاتا تھا جسے آپ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ذات اقدس‘ اپنے رشتے داروں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی جنگی قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ﷺ۔ (۲) جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑے کو مال غنیمت میں سے دو حصے ملیں گے۔ آدمی کو ایک۔ گویا گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں گھوڑے کو انسان پر فضیلت نہیں دے سکتا‘ لہٰذا وہ گھوڑے کے لیے ایک حصے کے قائل ہیں‘ حالانکہ اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی گھوڑا انسان سے زیادہ کھاتا ہے تو کیا زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ افضل ہوگیا؟ گھوڑے کو دوحصے دینا اسی بنا پر ہے کہ اس پر خرچ زیادہ اٹھتا ہے‘ نیز وہ جنگ میں آدمی سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک سوار پیدل سے کئی گنا زیادہ مفید ہے اور یہ فرق صرف گھوڑے کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا انصاف یہی ہے کہ اس کا حصہ آدمی سے زیادہ رکھا جائے۔ احادیث اس بارے میں صریح ہیں۔ مبہم روایات پر محمول کیا جائے گا‘ نیز حدیث کے مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔