سنن النسائي - حدیث 3618

كِتَابُ الْخَيْلِ وَالسَّبقِ وَالرَّمیِ بَاب السَّبَقِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّى الْعَضْبَاءَ لَا تُسْبَقُ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ فَسَبَقَهَا فَشَقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا رَأَى مَا فِي وُجُوهِهِمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ سُبِقَتْ الْعَضْبَاءُ قَالَ إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ مِنْ الدُّنْيَا شَيْءٌ إِلَّا وَضَعَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3618

کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل گھوڑدوڑ پر انعام مقرر کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ ا س سے کوئی اونٹ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک اعرابی اپنے جوان اونٹ پر آیا اور اس سے مقابلے میں آگے بڑھ گیا۔ یہ بات مسلمانوں کو بہت ناگوار گزری۔ جب رسول اللہﷺ نے ان کے چہروں کے تأثرات دیکھے جبکہ وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! عضباء تو پیچھے رہ گئی! تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے یہ بات لازم قراردے لی ہے کہ دنیا کی جو چیز بھی بلند مرتبہ ہوگی‘ اللہ تعالیٰ اسے (کسی نہ کسی وقت) نیچا دکھائے۔‘‘
تشریح : (۱) عضبائ، لغوی لحاظ سے اس کے معنی ’’کن کٹی‘‘ ہیں مگر آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی بلکہ اس کا عرفی نام عضباء تھا۔ ممکن ہے کان زیادہ چھوٹے ہوں‘ تشبیہاً عضباء کہہ دیا گیا ہو۔ (۲) ’’نیچا دکھائے گا‘‘ کیونکہ {کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ} (الرحمن۵۵:۲۶) ’’دنیا کی ہرچیز زوال پذیر ہے۔‘‘ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز ہمیشہ عروج کی حالت میں رہے۔ ہر جوان نے بوڑھا ہونا ہے اور ہر قوی نے کمزور ہونا ہے۔ ہر تیز نے سست ہوتا ہ۔ الا ماشاء اللہ۔ (۳) صحابہؓ کے دلوں میں اللہ کے رسولﷺ کی عزت وعظمت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آپ کی اونٹنی پر بھی کسی کی سبقت لے جانا پسند نہیں کرتے تھے جبکہ بدوحضرات میں بے ادبی اور سختی پائی جاتی تھی۔ (۴) حدیث تواضع اور انکسار پر ابھارتی ہے اور رسول اللہﷺ کی تواضع‘ انکسار اور حسن خلق کی مثال ہے۔ (۱) عضبائ، لغوی لحاظ سے اس کے معنی ’’کن کٹی‘‘ ہیں مگر آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی بلکہ اس کا عرفی نام عضباء تھا۔ ممکن ہے کان زیادہ چھوٹے ہوں‘ تشبیہاً عضباء کہہ دیا گیا ہو۔ (۲) ’’نیچا دکھائے گا‘‘ کیونکہ {کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ} (الرحمن۵۵:۲۶) ’’دنیا کی ہرچیز زوال پذیر ہے۔‘‘ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز ہمیشہ عروج کی حالت میں رہے۔ ہر جوان نے بوڑھا ہونا ہے اور ہر قوی نے کمزور ہونا ہے۔ ہر تیز نے سست ہوتا ہ۔ الا ماشاء اللہ۔ (۳) صحابہؓ کے دلوں میں اللہ کے رسولﷺ کی عزت وعظمت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آپ کی اونٹنی پر بھی کسی کی سبقت لے جانا پسند نہیں کرتے تھے جبکہ بدوحضرات میں بے ادبی اور سختی پائی جاتی تھی۔ (۴) حدیث تواضع اور انکسار پر ابھارتی ہے اور رسول اللہﷺ کی تواضع‘ انکسار اور حسن خلق کی مثال ہے۔