كِتَابُ الْخَيْلِ وَالسَّبقِ وَالرَّمیِ التَّشْدِيدُ فِي حَمْلِ الْحَمِيرِ عَلَى الْخَيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ رَجُلٌ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ قَالَ لَا قَالَ فَلَعَلَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ قَالَ خَمْشًا هَذِهِ شَرٌّ مِنْ الْأُولَى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِأَمْرِهِ فَبَلَّغَهُ وَاللَّهِ مَا اخْتَصَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ إِلَّا بِثَلَاثَةٍ أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ وَأَنْ لَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ وَلَا نُنْزِيَ الْحُمُرَ عَلَى الْخَيْلِ
کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل
گھوڑی کو گدھے سے جفتی کرانا سخت گناہ ہے
حضرت عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی نے ان سے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس آدمی نے کہا: ممکن ہے کہ آپ دل میں پڑھتے ہوں؟ وہ کہنے لگے: اللہ کرے تو زخمی ہو۔ یہ تو پہلے سے بری بات ہے۔ رسول اللہﷺ کے بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی کام دیے‘ آپ نے آگے پہنچادیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ نے ہم (اہل بیت) کو لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا مگر یہ تین چیزیں (ہوں تو ہوں): آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو اچھی طرح کریں‘ ہم صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی کو گدھے سے جفتی نہ کرائیں۔
تشریح :
’’نہیں‘‘ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال میں متفرد ہیں کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر میں مطلقاًقراء ت نہیں کرتے تھے۔ اونچی نہ آہستہ۔ دیگر صحابہ سے صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر وعصر میں بھی آہستہ قراء ت فرماتے تھے‘ لہٰذا اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا بات بجا تھی۔ آپ کے اونچا نہ پڑھنے سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے۔ (۲) ’’زخمی ہو‘‘ ناراضی سے فرمایا‘ حالانکہ اس شخص کی ساری نماز بھی تو آہستہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ تو کیا ساری نماز میں خاموش رہتے تھے؟ اس بات کے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قائل نہیں تھے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۳) ’’تین چیزیں‘‘ مگر یہ تین چیزیں بھی اہل بیت سے خاص نہیں۔ وضـو اچھی طرح کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ صدقہ بھی ہر مال دار پر حرام ہے تیسرا کام بھی ہرامتی کے لیے منع ہے‘ البتہ ’’معززین‘‘ کے لیے زیادہ سختی ہے۔ وہ اہل بیت ہوں یا اہل علم۔ واللہ اعلم۔
’’نہیں‘‘ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال میں متفرد ہیں کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر میں مطلقاًقراء ت نہیں کرتے تھے۔ اونچی نہ آہستہ۔ دیگر صحابہ سے صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر وعصر میں بھی آہستہ قراء ت فرماتے تھے‘ لہٰذا اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا بات بجا تھی۔ آپ کے اونچا نہ پڑھنے سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے۔ (۲) ’’زخمی ہو‘‘ ناراضی سے فرمایا‘ حالانکہ اس شخص کی ساری نماز بھی تو آہستہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ تو کیا ساری نماز میں خاموش رہتے تھے؟ اس بات کے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قائل نہیں تھے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۳) ’’تین چیزیں‘‘ مگر یہ تین چیزیں بھی اہل بیت سے خاص نہیں۔ وضـو اچھی طرح کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ صدقہ بھی ہر مال دار پر حرام ہے تیسرا کام بھی ہرامتی کے لیے منع ہے‘ البتہ ’’معززین‘‘ کے لیے زیادہ سختی ہے۔ وہ اہل بیت ہوں یا اہل علم۔ واللہ اعلم۔