سنن النسائي - حدیث 3598

كِتَابُ الْخَيْلِ وَالسَّبقِ وَالرَّمیِ بَاب شُؤْمِ الْخَيْلِ شاذ ، و المحفوظ بلفظ : " إن كان الشؤم في شيء ففي .... " أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3598

کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل کوئی گھوڑا منحوس ہوسکتا ہے؟ حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تین چیزوں میں نحوست ہوسکتی ہے: عورت ‘ گھوڑا اور گھر۔‘‘
تشریح : بعض روایات میں ہے کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی‘ اس لیے بعض حضرات نے اس پیرائیہ کلام سے نفی مراد لی ہے چونکہ ان تین چیزوں میں نحوست نہیں ہے‘ لہٰذا نحوست کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن بہت سی احادیث میں نحوست ثابت کی گئی ہے۔ ضروری نہیں کہ تمام احادیث ایک ہی معنی کی ہوں‘ ورنہ ان کے راویوں پر وہم کا الزام لگانا پڑے گا جس کی کوئی دلیل نہیں‘ بنابریں صحیح یہی ہے کہ ان چیزوں میں نحوست ممکن ہے‘ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک نحوست سے کوئی ایسا مخفی وصف مراد ہے جس کی بنا پر وہ عورت‘ گھوڑا یا گھر نقصان کا سبب بنتے رہتے ہیں اور وہ مخفی وصف اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے‘ لہٰذا اس تصور سے عقیدے پر کوئی زد نہیں پڑے گی‘ جبکہ بعض محققین نے نحوست کی توجیہ بعض دوسری احادیث ہی سے بیان کی ہے کہ عورت کے اخلاق اچھے نہ ہوں‘ بدزبان ہو‘ نافرمان ہو‘ جھگڑالو ہو جس سے گھر میں بے چینی اور بے ترکری کی فضا چھائی رہے۔ اسی طرح گھوڑا اڑیل ہو‘ ہدایت کے الٹ کرتا ہو‘ ہر وقت مارپیٹ کی تھکاوٹ برداشت کرنی پڑے وغیرہ جس کی وجہ سے ذہن پریشان رہے۔ اسی طرح گھر کا پڑوس‘ ماحول‘ آب وہوا اچھے نہ ہوں‘ یعنی گھر تنگ ہو‘ ہو اور روشنی کا صحیح گزر نہ ہو جس کی بنا پر تفریح طبع حاصل نہ ہو‘ بیماریاں حملہ آور ہوں وغیرہ۔ یہ توجیہ بھی بہت مناسب ہے کیونکہ احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی‘ اس لیے بعض حضرات نے اس پیرائیہ کلام سے نفی مراد لی ہے چونکہ ان تین چیزوں میں نحوست نہیں ہے‘ لہٰذا نحوست کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن بہت سی احادیث میں نحوست ثابت کی گئی ہے۔ ضروری نہیں کہ تمام احادیث ایک ہی معنی کی ہوں‘ ورنہ ان کے راویوں پر وہم کا الزام لگانا پڑے گا جس کی کوئی دلیل نہیں‘ بنابریں صحیح یہی ہے کہ ان چیزوں میں نحوست ممکن ہے‘ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک نحوست سے کوئی ایسا مخفی وصف مراد ہے جس کی بنا پر وہ عورت‘ گھوڑا یا گھر نقصان کا سبب بنتے رہتے ہیں اور وہ مخفی وصف اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے‘ لہٰذا اس تصور سے عقیدے پر کوئی زد نہیں پڑے گی‘ جبکہ بعض محققین نے نحوست کی توجیہ بعض دوسری احادیث ہی سے بیان کی ہے کہ عورت کے اخلاق اچھے نہ ہوں‘ بدزبان ہو‘ نافرمان ہو‘ جھگڑالو ہو جس سے گھر میں بے چینی اور بے ترکری کی فضا چھائی رہے۔ اسی طرح گھوڑا اڑیل ہو‘ ہدایت کے الٹ کرتا ہو‘ ہر وقت مارپیٹ کی تھکاوٹ برداشت کرنی پڑے وغیرہ جس کی وجہ سے ذہن پریشان رہے۔ اسی طرح گھر کا پڑوس‘ ماحول‘ آب وہوا اچھے نہ ہوں‘ یعنی گھر تنگ ہو‘ ہو اور روشنی کا صحیح گزر نہ ہو جس کی بنا پر تفریح طبع حاصل نہ ہو‘ بیماریاں حملہ آور ہوں وغیرہ۔ یہ توجیہ بھی بہت مناسب ہے کیونکہ احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔