سنن النسائي - حدیث 3593

كِتَابُ الْخَيْلِ وَالسَّبقِ وَالرَّمیِ بَاب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخَيْلُ لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَلِرَجُلٍ سَتْرٌ وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ فِي الْمَرْجِ أَوْ الرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٌ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا ذَلِكَ فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ تُسْقَى كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ فَهِيَ لَهُ أَجْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لِذَلِكَ سَتْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ وَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَمِيرِ فَقَالَ لَمْ يَنْزِلْ عَلَيَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ(الزلزلۃ:7‘8۔

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3593

کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل قیامت تک گھوڑے کی پیشانی میں خیروبرکت رکھ دی گئی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑے کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ ہیں‘ کسی کے لیے پردہ پوشی کا سبب ہیں اور کسی کے لیے گناہ کا موجب ہیں۔ ثواب اس شخص کے لیے ہیں جس نے انہیں جہاد کے لیے باندھ رکھا ہے اور چراگاہ اور باغیچے میں ان کی رسی فراخ کررکھی ہے۔ وہ رسی میں بندھے ہوئے اس چراگاہ اور باغیچے سے جو کچھ بھی کھائیں پئیں گے‘ وہ اس کے لیے نیکیاں ہی نیکیاں ہیں۔ اور اگر وہ رسی تڑا کر ایک دوٹیلے تک ادھر ادھر بھاگ جائیں تو ان کے نشانات قدم حتیٰ کہ ان کی لید بھی اس کی نیکیوں میںاضافے کا سبب ہے اور اگر وہ کسی نہر اور دریا کے پاس سے گزرتے وقت پانی پی لیں‘ خواہ اس نے انہیں پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو‘ تو وہ پانی بھی اس کے لیے نیکیاں بن جائے گا۔ یہ تو ثواب والے گھوڑے ہیں۔ اور جس آدمی نے انہیں اپنے فائدے کے لیے باندھا کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے‘ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ان گھوڑوں اور ان کی سواری کے مسئلے میں اللہ تعالیٰ کا حق فراموش نہیں کیا‘ یہ اس شخص کے لیے پردہ پوش ہیں۔ اور جس شخص نے فخر‘ ریاکاری اور اہل اسلام کی مخالفت کی غرض سے گھوڑے باندھے‘ تو یہ اس کے لیے گناہ کا موجب ہوں گے۔‘‘ نبیﷺ سے گدھے (پالنے) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’ان کے بارے میں مجھ پر کوئی مخصوص وحی نہیں اتری‘ البتہ یہ واحد جامع آیت موجود ہے: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ} ’’جو شخص ذرہ بھی نیکی کرے گا‘ اس کی جزا پالے گا اور جو ذرہ بھر براءی کرے گا‘ اس کی سزا پالے گا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’نیک نیتی‘‘ معمول کے کاموں کو بھی ثواب کا ذریعہ بنادیتی ہے‘ خواہ انسان جزئیات میں ثواب کی نیت نہ بھی کرے۔ اسی طرح بدنیتی نیکی کے کاموں کو بھی عذاب کا ذریعہ بنادیتی ہے۔ (۲) ’’اللہ تعالیٰ کا حق فراموش نہیں کیا‘‘ اللہ کے حق سے مراد گھوڑے کی مناسب دیکھ بھال کرنا‘ طاقت سے زیادہ کام نہ لینا‘ ضرورت مند کو سواری کے لیے دینا‘ نیز نیکی اور خیر کے دوسرے کاموں کے لیے دینا ہے۔ بعض نے اس سے مراد گھوڑوں کی زکاۃ ادا کرنا بھی لیا ہے‘ تاہم پہلا مفہوم ہی درست ہے کیونکہ گھوڑوں پر زکاۃ نہیں ہے‘ بشرطیکہ انہیں تجارتی مقصد کے لیے نہ رکھا ہوا ہو۔ (۳) انسان ہو یا جانور‘ سب سے اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے اور جو کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ پورا اجر دیتا ہے۔ (۱) ’’نیک نیتی‘‘ معمول کے کاموں کو بھی ثواب کا ذریعہ بنادیتی ہے‘ خواہ انسان جزئیات میں ثواب کی نیت نہ بھی کرے۔ اسی طرح بدنیتی نیکی کے کاموں کو بھی عذاب کا ذریعہ بنادیتی ہے۔ (۲) ’’اللہ تعالیٰ کا حق فراموش نہیں کیا‘‘ اللہ کے حق سے مراد گھوڑے کی مناسب دیکھ بھال کرنا‘ طاقت سے زیادہ کام نہ لینا‘ ضرورت مند کو سواری کے لیے دینا‘ نیز نیکی اور خیر کے دوسرے کاموں کے لیے دینا ہے۔ بعض نے اس سے مراد گھوڑوں کی زکاۃ ادا کرنا بھی لیا ہے‘ تاہم پہلا مفہوم ہی درست ہے کیونکہ گھوڑوں پر زکاۃ نہیں ہے‘ بشرطیکہ انہیں تجارتی مقصد کے لیے نہ رکھا ہوا ہو۔ (۳) انسان ہو یا جانور‘ سب سے اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے اور جو کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ پورا اجر دیتا ہے۔