سنن النسائي - حدیث 3579

كِتَابُ الطَّلَاقِ الرُّخْصَةُ فِي خُرُوجِ الْمَبْتُوتَةِ مِنْ بَيْتِهَا فِي عِدَّتِهَا لِسُكْنَاهَا صحيح أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَقَ الصَّاغَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمَّارٌ هُوَ ابْنُ رُزَيْقٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ طَلَّقَنِي زَوْجِي فَأَرَدْتُ النُّقْلَةَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ عَمْرِو بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَاعْتَدِّي فِيهِ فَحَصَبَهُ الْأَسْوَدُ وَقَالَ وَيْلَكَ لِمَ تُفْتِي بِمِثْلِ هَذَا قَالَ عُمَرُ إِنْ جِئْتِ بِشَاهِدَيْنِ يَشْهَدَانِ أَنَّهُمَا سَمِعَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَّا لَمْ نَتْرُكْ كِتَابَ اللَّهِ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ(الطلاق:1)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3579

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل :۷۰۔ جس عورت کو طلاق بائن ہوچکی ہو‘ وہ دوران عدت اپنے گھر سے کسی دوسری جگہ جاسکتی ہے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے‘ کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے خاوند کے گھر سے منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے چچا کے بیٹے عمور بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہوجا اور وہاں عدت پوری کر۔‘‘ (یہ سن کر) حضرت اسود نے حضرت شعبی کو مار کر کہا: تو مرے! ایسا فتویٰ کیوں دیتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اگر تو دوگواہ لے آئے جو گواہی دیں کہ واقعتا رسول اللہﷺ سے ہم نے یہ بات سنی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا یہ حکم نہیں چھوڑ سکتے: {لاَ تُخْرِجُوْھُنَّ …بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} ’’مطلقہ عورتوں کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود منتقل ہوں‘ الا یہ کہ وہ کسی واضـح براءی کا ارتکاب کربیٹھیں۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۳۲۲۴۔ (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزراج’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔ (۱) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۳۲۲۴۔ (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزراج’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔