سنن النسائي - حدیث 3564

كِتَابُ الطَّلَاقِ مَا تَجْتَنِبُ الْحَادَّةُ مِنْ الثِّيَابِ الْمُصَبَّغَةِ صحيح أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ حَفْصَةَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِدُّ امْرَأَةٌ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا وَلَا ثَوْبَ عَصْبٍ وَلَا تَكْتَحِلُ وَلَا تَمْتَشِطُ وَلَا تَمَسُّ طِيبًا إِلَّا عِنْدَ طُهْرِهَا حِينَ تَطْهُرُ نُبَذًا مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3564

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل سوگ کرنے والی عورت شوخ رنگ دار کپڑوں سے پرہیز کرے حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زائد سوگ نہ کرے‘ البتہ خاوند پر چار ماہ دس دن کرے۔ وہ کوئی شوخ رنگ دار کپڑا نہ پہنے۔ نہ دھاری دار کپڑا پہنے۔ نہ سرمہ ڈالے۔ نہ کنگھی کرے۔ نہ خوشبو لگائے مگر جب وہ حیض سے پاک ہو تو کچھ قسط یا اظفار خوشبو لگاسکتی ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’شوخ رنگ دار‘‘ یعنی جو کپڑا بننے کے بعد رنگا جائے۔ عموماً ایسا رنگ شوخ ہوتا ہے۔ (۲) ’’دھاری دار کپڑا‘‘ اصل عربی لفظ ’’ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ استعمال کیا گیا ہے‘ یعنی وہ کپڑا جسے بننے سے پہلے رنگا جائے‘ حالانکہ ایسا کپڑا پہننا تو سوگ والی کے لیے جائز ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں صراحت ہے: ]۔اِلاَّ اَثَوْبَ عَصْبٍ[ (صحیح البخاری‘ الحیض ‘حدیث: ۳۱۳‘ وصحیح مسلم‘ الطلاق‘ حدیث: ۹۳۸‘ بعد: ۱۴۹۱)تو یہاں ’’وَلاَ ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ فاش غلطی ہے کہ ’’اِلاَّ‘‘ کی بجائے ’’وَلاَ‘‘ ہوگیا جس سے مفہوم بالکل الٹ ہوگیا ہے۔ نسائی کبریٰ نسائی میں ’’اِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ ہی ہے۔ موجود الفاظ کا جواز مہیا کرنے کے لیے ترجمہ ’’دھاری دار‘‘ کیا گیا ہے کیونکہ دھاری دار کپڑے میں بھی خوشبو ہوتی ہے۔ (۳) ’’کچھ خوشبو لگاسکتی ہے‘‘ یہ خوشبو زینت کے لیے نہیں بلکہ حیض کی بو ختم کرنے کے لیے ہے‘ نیز یہ خوشبو حیض والی جگہ پر لگائی جائے گی نہ کہ باقی جسم پر۔ (۱) ’’شوخ رنگ دار‘‘ یعنی جو کپڑا بننے کے بعد رنگا جائے۔ عموماً ایسا رنگ شوخ ہوتا ہے۔ (۲) ’’دھاری دار کپڑا‘‘ اصل عربی لفظ ’’ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ استعمال کیا گیا ہے‘ یعنی وہ کپڑا جسے بننے سے پہلے رنگا جائے‘ حالانکہ ایسا کپڑا پہننا تو سوگ والی کے لیے جائز ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں صراحت ہے: ]۔اِلاَّ اَثَوْبَ عَصْبٍ[ (صحیح البخاری‘ الحیض ‘حدیث: ۳۱۳‘ وصحیح مسلم‘ الطلاق‘ حدیث: ۹۳۸‘ بعد: ۱۴۹۱)تو یہاں ’’وَلاَ ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ فاش غلطی ہے کہ ’’اِلاَّ‘‘ کی بجائے ’’وَلاَ‘‘ ہوگیا جس سے مفہوم بالکل الٹ ہوگیا ہے۔ نسائی کبریٰ نسائی میں ’’اِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ‘‘ ہی ہے۔ موجود الفاظ کا جواز مہیا کرنے کے لیے ترجمہ ’’دھاری دار‘‘ کیا گیا ہے کیونکہ دھاری دار کپڑے میں بھی خوشبو ہوتی ہے۔ (۳) ’’کچھ خوشبو لگاسکتی ہے‘‘ یہ خوشبو زینت کے لیے نہیں بلکہ حیض کی بو ختم کرنے کے لیے ہے‘ نیز یہ خوشبو حیض والی جگہ پر لگائی جائے گی نہ کہ باقی جسم پر۔