سنن النسائي - حدیث 3562

كِتَابُ الطَّلَاقِ عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَتْنِي زَيْنَبُ بِنْتُ كَعْبٍ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فُرَيْعَةُ بِنْتُ مَالِكٍ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَتْ تُوُفِّيَ زَوْجِي بِالْقَدُومِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ إِنَّ دَارَنَا شَاسِعَةٌ فَأَذِنَ لَهَا ثُمَّ دَعَاهَا فَقَالَ امْكُثِي فِي بَيْتِكِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3562

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ اس کی عدت خبر ملنے کے دن سے شروع ہوگی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ حضرت فریعہ بونت مالکؓ فرماتی ہیں کہ میرا خاوند قدم جگہ میں قتل ہوگیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ ہمارا گھر دوردراز جگہ میں ہے (مجھے میکے منتقل ہونے کی اجازت دی جائے)۔ آپ نے اجازت دے دی‘ پھر بلایا اور فرمایا: ’’اپنے گھر ہی میں چار ماہ دس دن ٹھہر حتیٰ کہ مقررہ عدت پوری ہوجائے۔‘‘
تشریح : اس حدیث میں باب پر دلالت کرنے والے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عدت وفات سے شروع ہوگی نہ کہ خبر ملنے سے۔ عقلاً ونقلاً یہی بات صحیح ہے۔ قرآن وحدیث میں وفات کا ذکر ہے نہ کہ خبر ملنے کا۔ ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ ائمہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد‘ امام اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرائے وغیرہ کا یہی موقف ہے۔ دوسرا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے‘ نیز حسن بصری‘ قتادہ اور عطاء خراسانی وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے جو کہ درست نہیں۔ اس حدیث میں باب پر دلالت کرنے والے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عدت وفات سے شروع ہوگی نہ کہ خبر ملنے سے۔ عقلاً ونقلاً یہی بات صحیح ہے۔ قرآن وحدیث میں وفات کا ذکر ہے نہ کہ خبر ملنے کا۔ ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ ائمہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد‘ امام اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرائے وغیرہ کا یہی موقف ہے۔ دوسرا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے‘ نیز حسن بصری‘ قتادہ اور عطاء خراسانی وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے جو کہ درست نہیں۔