سنن النسائي - حدیث 3531

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ قُلْتُ عَنْ أُمِّهَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا أَتَكْتَحِلُ فَقَالَ قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي بَيْتِهَا فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا حَوْلًا ثُمَّ خَرَجَتْ فَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3531

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ اس کی عدت حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور اسکی آنکھوں کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا‘ کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: (دور جاہلیت میں) ایک عورت کو اپنے گھر میں ایک سال تک بدترین ٹاٹ میں رہنا پڑتا تھا‘ پھر وہ نکلی تھی۔ وہ کیا اب وہ چار مہینے دس دن تک انتظار نہیں کرسکتی؟‘‘
تشریح : (۱) جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ اس عدت کے دوران میں عورت کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہوگا‘ یعنی ہر قسم کی زیب وزینت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سرمہ بھی زینت ہے‘ لہٰذا سوگ کے دوران میں وہ سرمہ نہیں لگاسکتی۔ اگر آنکھوں میں تکلیف ہوتو کوئی اور دوا استعمال کی جائے جو زینت کا کام نہ دے۔ (۲) جاہلیت میں دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجاتا اسے ایک سال الگ تھلگ کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ نہانے دھونے تک کی اجازت نہ ہوتیا تھی حتیٰ کہ غسل حیض بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کپڑے بھی وہی رہتے تھے۔ تبھی حدیث میں ان کو ’’بدترین ٹاٹ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس دوران وہ اس قدر بدبو اور زہریلی بن جاتی کہ اگر کوئی جانور اس کے جسم کو چھوتا تو وہ بھی مرجاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اسے کمرے سے نکالا جاتا اور اسے اونٹ کی ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینکتی تھی۔ گویا اب اس کی بری حالت ختم ہوچکی ہے‘ نیز یہ عدت ختم ہنوے کی علامت تھی جب کہ اسلام نے صرف زینت سے روکا ہے۔ وہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہی رہے گی‘ نہائے دھوئے گی‘ البتہ نئے یا شوخ کپڑوں‘ زیورات‘ میک اپ اور دوسری زیب وزینت سے پرہیز کرے گی اور حتی الامکان گھر میں رہے گی۔ (۱) جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ اس عدت کے دوران میں عورت کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہوگا‘ یعنی ہر قسم کی زیب وزینت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سرمہ بھی زینت ہے‘ لہٰذا سوگ کے دوران میں وہ سرمہ نہیں لگاسکتی۔ اگر آنکھوں میں تکلیف ہوتو کوئی اور دوا استعمال کی جائے جو زینت کا کام نہ دے۔ (۲) جاہلیت میں دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجاتا اسے ایک سال الگ تھلگ کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ نہانے دھونے تک کی اجازت نہ ہوتیا تھی حتیٰ کہ غسل حیض بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کپڑے بھی وہی رہتے تھے۔ تبھی حدیث میں ان کو ’’بدترین ٹاٹ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس دوران وہ اس قدر بدبو اور زہریلی بن جاتی کہ اگر کوئی جانور اس کے جسم کو چھوتا تو وہ بھی مرجاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اسے کمرے سے نکالا جاتا اور اسے اونٹ کی ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینکتی تھی۔ گویا اب اس کی بری حالت ختم ہوچکی ہے‘ نیز یہ عدت ختم ہنوے کی علامت تھی جب کہ اسلام نے صرف زینت سے روکا ہے۔ وہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہی رہے گی‘ نہائے دھوئے گی‘ البتہ نئے یا شوخ کپڑوں‘ زیورات‘ میک اپ اور دوسری زیب وزینت سے پرہیز کرے گی اور حتی الامکان گھر میں رہے گی۔