سنن النسائي - حدیث 3528

كِتَابُ الطَّلَاقِ عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَمِّي قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ رُبَيِّعَ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَ قُلْتُ لَهَا حَدِّثِينِي حَدِيثَكِ قَالَتْ اخْتَلَعْتُ مِنْ زَوْجِي ثُمَّ جِئْتُ عُثْمَانَ فَسَأَلْتُهُ مَاذَا عَلَيَّ مِنْ الْعِدَّةِ فَقَالَ لَا عِدَّةَ عَلَيْكِ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَدِيثَةَ عَهْدٍ بِهِ فَتَمْكُثِي حَتَّى تَحِيضِي حَيْضَةً قَالَ وَأَنَا مُتَّبِعٌ فِي ذَلِكَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرْيَمَ الْمَغَالِيَّةِ كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ فَاخْتَلَعَتْ مِنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3528

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل خلع حاصل کرنے ولی عورت کی عدت حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے اپنا واقعہ بیان کیجیے۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے اپنے خاوند سے خلع لیا‘ پھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ سے پوچھا: مجھ پر کتنی عدت واجب ہے؟ انہو ںنے فرمایا: تجھ پر کوئی عدت واجب نہیں مگر یہ کہ تیرے خاوند نے تجھ سے اس طہر میں جماع کیا ہو تو پھر تو ایک حیض انتظار کر۔ انہوں نے فرمایا: اس سلسلے میں میں نے مریم مغالیہ کی بابت رسول اللہﷺ کے فیصلے کی پیروی کی ہے۔ وہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھی اور انہوں نے ان سے خلع لے لیا تھا۔
تشریح : (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حیض عدت بھی استبراءے رحم‘ یعنی رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے ہے۔ اگر تازہ طہر میں جماع نیہ ہوا ہو تو ایک حیض عدت بھی ضروری نہیںلیکن یہ تفصیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اپنی ہے‘ نبیﷺ سے جو صحیح ثابت ہے کہ ویہی ہے کہ آپ نے ہر خلع والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے (ماسواحاملہ کے) خواہ اس سے حالیہ طہر میں جماع ہوا ہو یانہ۔ آپ نے اس کی تفصیل طلب نہیں کی‘ نیز چونکہ جماع مخفی چیز ہے‘ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ہر خلع والی عورعت ایک حیض عدت گزارے تاکہ شک وشبہ نہ رہے۔ (۲) یہ بات یادرہے کہ خلع میں رجوع تو نہیں ہوسکتا مگر بعد میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تین طلاق کے حکم میں ہیں۔ (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حیض عدت بھی استبراءے رحم‘ یعنی رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے ہے۔ اگر تازہ طہر میں جماع نیہ ہوا ہو تو ایک حیض عدت بھی ضروری نہیںلیکن یہ تفصیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اپنی ہے‘ نبیﷺ سے جو صحیح ثابت ہے کہ ویہی ہے کہ آپ نے ہر خلع والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے (ماسواحاملہ کے) خواہ اس سے حالیہ طہر میں جماع ہوا ہو یانہ۔ آپ نے اس کی تفصیل طلب نہیں کی‘ نیز چونکہ جماع مخفی چیز ہے‘ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ہر خلع والی عورعت ایک حیض عدت گزارے تاکہ شک وشبہ نہ رہے۔ (۲) یہ بات یادرہے کہ خلع میں رجوع تو نہیں ہوسکتا مگر بعد میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تین طلاق کے حکم میں ہیں۔