كِتَابُ الطَّلَاقِ إِسْلَامُ أَحَدِ الزَّوْجَيْنِ وَتَخْيِيرُ الْوَلَدِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زِيَادٌ عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ فَجَاءَ زَوْجُهَا وَقَالَ مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي ابْنِي فَقَالَ يَا غُلَامُ هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو بچے کو اختیار دیا جائے (وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے)
حضرت ابومیمونہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوںنے فرمایا: ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میرا (سابقہ) خاوند میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جب کہ وہ مجھے بہت نفع دیتا ہے‘ مثلاً بئرأبی عنبہ سے مجھے پانی لاکر دے دیتا ہے۔ اتنے میں اس کا خاوند بھی آگیا اور کہنے لگا: میرے بیٹے کے بارے میں کون مجھ سے جھگڑا کرسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں‘ جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔‘‘ اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لے کر چلی گئی۔
تشریح :
(۱) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ انی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔‘‘ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:۲۲۷۶) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔ (۲) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً ۱۲ میل دور ایک کنواں ہے۔
(۱) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ انی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔‘‘ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:۲۲۷۶) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔ (۲) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً ۱۲ میل دور ایک کنواں ہے۔