سنن النسائي - حدیث 3525

كِتَابُ الطَّلَاقِ إِسْلَامُ أَحَدِ الزَّوْجَيْنِ وَتَخْيِيرُ الْوَلَدِ صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتْ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ فَجَاءَ ابْنٌ لَهُمَا صَغِيرٌ لَمْ يَبْلُغْ الْحُلُمَ فَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبَ هَا هُنَا وَالْأُمَّ هَا هُنَا ثُمَّ خَيَّرَهُ فَقَالَ اللَّهُمَّ اهْدِهِ فَذَهَبَ إِلَى أَبِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3525

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو بچے کو اختیار دیا جائے (وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے) حضرت عبدالحمید بن سلمہ انصاری کے دادا محترم سے راویت ہے کہ میں مسلمان ہوگیا لیکن میری بیوی نے اسلام لانے سے انکار کردیا۔ ہمارا ایک چھوٹا بچہ آیا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا۔ نبیﷺ نے باپ کو ایک طرف بٹھا لیا اور ماں کو دوسری طرف‘ پھر آپ نے بچے کو اختیار دیا کہ اور دعا فرمائی: ’’یا اللہ! اسے ہدایت دے۔‘‘ چنانچہ وہ بچہ (اللہ کی توفیق سے) باپ کی طرف چلاگیا۔
تشریح : خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور بچہ سن تمیز کو پہنتا ہوا تو اسے کس کی تحویل میں دیا جائے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصحاب الرائے کے نزدیک کافر کے لیے حق حضانت (پرورش) ثابت ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے یہ ولایت ہے۔ اور جب نکاح اور مال میں کافر کی ولایت ثابت نہیں ہوتی تو حضانت میں تو بالا ولی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا نقصان ان دونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘ اس لیے کہ جب کافر‘ بچے کی پرورش کرے گا تو ظاہر ہے اس کی خواہش ہوگی کہ بچہ میرے دین پر ہو‘ اس لیے ہو اس کی اپنے دین کے مطابق پرورش اور تربیت کرے گا اور اپنے دین کی اسے تعلیم دے گا۔ نتیجتاً بچہ کافر ہوجائے گا کیونکہ بچہ وہی بنتا ہے جس کی اسے تربیت دی جائے۔ فرمان نبوی ہے: ’’بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الجنائز‘ حدیث: ۱۳۵۸‘ وصحیح مسلم‘ القدر‘ حدیث: ۲۶۵۸) بعد میں اس کا اسلام کی طف آنا بہت مشکل ہوگا لیکن بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: {لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلَکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ سَبِیْلاً} اس لیے بچے کو مسلمان کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافرع کے پاس جانا اللہ کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ نبیﷺ نے مذکورہ مسئلے میں اختیار کیوں دیا جبکہ ماں کافر تھی؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نبیﷺ کو یقین تھا کہ میری دعا قبول ہوجا ئے گی اور بچہ یقینا باپ کے پاس جائے گا‘ اس لیے آپ نے ماں کی دل جوئی کے لیے ایسا کیا۔ اگر اس بات کو درست تسلیم نہ بھی کیا جائے اور مذکورہ صورت میں اختیار ہی کو درست سمجھا جائے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے اختیار دیا تھا‘ تو بھی کافر کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بچہ اس کی تحویل میں اس شرط پر دیا جائے گا کہ وہ بچے کی تربیت اسلام کے مطابق کرے۔ یہ شرط عائد کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ حدیث میں شرط کی نفی نہیں (اس لیے کہ حدیث میں بچے کے کافر کے پاس جانے کی نوبت نہیں آتی۔) بلکہ شرط دینی مصالح کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کسی آیت یا حدیث کو (نعوذ باللہ) رد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ واللہ اعلم۔ خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور بچہ سن تمیز کو پہنتا ہوا تو اسے کس کی تحویل میں دیا جائے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصحاب الرائے کے نزدیک کافر کے لیے حق حضانت (پرورش) ثابت ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے یہ ولایت ہے۔ اور جب نکاح اور مال میں کافر کی ولایت ثابت نہیں ہوتی تو حضانت میں تو بالا ولی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا نقصان ان دونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘ اس لیے کہ جب کافر‘ بچے کی پرورش کرے گا تو ظاہر ہے اس کی خواہش ہوگی کہ بچہ میرے دین پر ہو‘ اس لیے ہو اس کی اپنے دین کے مطابق پرورش اور تربیت کرے گا اور اپنے دین کی اسے تعلیم دے گا۔ نتیجتاً بچہ کافر ہوجائے گا کیونکہ بچہ وہی بنتا ہے جس کی اسے تربیت دی جائے۔ فرمان نبوی ہے: ’’بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الجنائز‘ حدیث: ۱۳۵۸‘ وصحیح مسلم‘ القدر‘ حدیث: ۲۶۵۸) بعد میں اس کا اسلام کی طف آنا بہت مشکل ہوگا لیکن بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: {لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلَکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ سَبِیْلاً} اس لیے بچے کو مسلمان کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافرع کے پاس جانا اللہ کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ نبیﷺ نے مذکورہ مسئلے میں اختیار کیوں دیا جبکہ ماں کافر تھی؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نبیﷺ کو یقین تھا کہ میری دعا قبول ہوجا ئے گی اور بچہ یقینا باپ کے پاس جائے گا‘ اس لیے آپ نے ماں کی دل جوئی کے لیے ایسا کیا۔ اگر اس بات کو درست تسلیم نہ بھی کیا جائے اور مذکورہ صورت میں اختیار ہی کو درست سمجھا جائے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے اختیار دیا تھا‘ تو بھی کافر کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بچہ اس کی تحویل میں اس شرط پر دیا جائے گا کہ وہ بچے کی تربیت اسلام کے مطابق کرے۔ یہ شرط عائد کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ حدیث میں شرط کی نفی نہیں (اس لیے کہ حدیث میں بچے کے کافر کے پاس جانے کی نوبت نہیں آتی۔) بلکہ شرط دینی مصالح کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کسی آیت یا حدیث کو (نعوذ باللہ) رد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ واللہ اعلم۔