سنن النسائي - حدیث 3523

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب الْقَافَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ فَقَالَ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ فَقَالَ إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ لَمِنْ بَعْضٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3523

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل قیافہ شناسی کا بیان حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ رسول اللہﷺ ایک دفعہ میرے پاس خوش خوش تشریف لائے۔ آپ کے چہرئہ مبارک کی دھاریاں چمک رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(عائشہ!) تجھے پتہ چلا کہ مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو (لیٹے ہوئے) دیکھا تو کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے (باپ بیٹے) ہی کے (معلوم ہوتے) ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سفید رنگ کے تھے جب کہ ان کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سیاہ رنگ کے۔ شاید والدہ کا اثر تھا۔ اس بنا پر بعض لوگ ان کے نسب میں شک کرتے تھے۔ انتہائی قریبی تعلق کی وجہ سے رسول اللہﷺ کو ان باتوں سے تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مجززمد لجی‘ ایک مشہور قیافہ شناس جس کے قیافے کو پورا علاقہ تسلیم کرتا تھا‘ گزرا تو دونوں باپ بیٹا سوئے پڑے تھے‘ ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے مگر پاؤں ننگے تھے۔ اس نے اپنی عادت کے مطابق دونوں کے پاؤں غور سے دیکھ کر کہا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔ اس کی یہ مبنی برحقیقت اور سچی بات سن کر نبیﷺ کو خوشی ہوئی کہ اب تو ایک مشہور قیافہ شناس نے تصدیق کردی ہے۔ اب زبانیں گنگ ہوجائیں گی۔ (۲) قیافہ شناسی بھی عقلاً قطعی نہ ہونے کے باوجود انسانی ذہن کو مطمئن کرتی ہے۔ عموماً لوگ تسلیم کرتے ہیں‘ لہٰذا کسی مشکل مسئلے میں قیافہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ احناف اس کے بھی قائل نہیں‘ حالانکہ دنیا کے بہت کم کام یقین سے طے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ظن غالب ہی کو معتبر مانا جاتا ہے‘ لہٰذا قیافہ کے انکار کی ضرورت نہیں بلکہ بعض متنازعہ مسائل میں قیافہ شناس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ (۱) حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سفید رنگ کے تھے جب کہ ان کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سیاہ رنگ کے۔ شاید والدہ کا اثر تھا۔ اس بنا پر بعض لوگ ان کے نسب میں شک کرتے تھے۔ انتہائی قریبی تعلق کی وجہ سے رسول اللہﷺ کو ان باتوں سے تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مجززمد لجی‘ ایک مشہور قیافہ شناس جس کے قیافے کو پورا علاقہ تسلیم کرتا تھا‘ گزرا تو دونوں باپ بیٹا سوئے پڑے تھے‘ ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے مگر پاؤں ننگے تھے۔ اس نے اپنی عادت کے مطابق دونوں کے پاؤں غور سے دیکھ کر کہا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔ اس کی یہ مبنی برحقیقت اور سچی بات سن کر نبیﷺ کو خوشی ہوئی کہ اب تو ایک مشہور قیافہ شناس نے تصدیق کردی ہے۔ اب زبانیں گنگ ہوجائیں گی۔ (۲) قیافہ شناسی بھی عقلاً قطعی نہ ہونے کے باوجود انسانی ذہن کو مطمئن کرتی ہے۔ عموماً لوگ تسلیم کرتے ہیں‘ لہٰذا کسی مشکل مسئلے میں قیافہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ احناف اس کے بھی قائل نہیں‘ حالانکہ دنیا کے بہت کم کام یقین سے طے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ظن غالب ہی کو معتبر مانا جاتا ہے‘ لہٰذا قیافہ کے انکار کی ضرورت نہیں بلکہ بعض متنازعہ مسائل میں قیافہ شناس سے مدد لی جاسکتی ہے۔