سنن النسائي - حدیث 3505

كِتَابُ الطَّلَاقِ اسْتِتَابَةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ بَعْدَ اللِّعَانِ صحيح أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ قَالَ فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ وَقَالَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ قَالَ لَهُمَا ثَلَاثًا فَأَبَيَا فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا قَالَ أَيُّوبُ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُ بِهِ قَالَ قَالَ الرَّجُلُ مَالِي قَالَ لَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهِيَ أَبْعَدُ مِنْكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3505

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل لعان کرنے والے خاوند بیوی سے لعان کے بعد توبہ کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ایک آدمی اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگادے (اور ان میں لعان ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟) انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے بنو عجلان کے لعان کرنے والے خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔ اور آپ نے (بعد میں) فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرتا ہے؟‘‘ آپ نے تین دفعہ فرمایا: انہوں نے انکار کیا تو آپ نے ان میں جدائی ڈال دی۔ وہ آدمی کہنے لگا: میرا مال؟ آپ نے فرمایا: ’’تجھے کوئی مال نہیں ملے گا۔ اگر تو سچا ہے تو تو نے اس سے جماع وغیرہ بھی کیے ہیں۔ اور اگر تو جھوٹا ہے تو پھر تو تجھے مال مل ہی نہیں سکتا۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لعان کے بعد ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے سمجھا ہے لیکن ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ نے لعان سے قبل ان سے توبہ کا کا مطالبہ کیاتھا۔ تو ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے: ایک ہلال بن امیہ کا جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں لعان سے قبل توبہ کاذکر ہے۔ اور دوسرا عویمر عجلانی کا‘ اس میں لعان کے بعد توبہ کا ذکر ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ دونو ں طرح صحیح ہے۔ مطالبہ پہلے بھی کیا جاسکتا ہے اور بعد میں بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں یہی موقف اپنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباری:۹/۴۵۸) (۲) ’’میرا مال‘‘ اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ نکاح عورت کے جرم کی وجہ سے ختم ہورہا ہے‘ لہٰذا مجھے مہر واپس ملنا چاہیے۔ آپ کے فرمان کام مطلب یہ ہے کہ تمہارے سچ یا جھوٹ کا یقین نہیں۔ ممکن ہے تو سچاہو اور ممکن ہے وہ بے گناہ ہو‘ اس لیے مہر واپس نہیں مل سکتا۔ ار تم سچے بھی تو تب بھی تم نے اس سے بہت فائدہ اٹھالیا ہے‘ لہٰذا مہر کی واپسی کا مطالبہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ (۳) عربی متن میں ’’قَاَلَ أَیُّوْبُ‘‘ کا ترجمہ سلامت کے پیش نظر نہیں کیا گیا۔ اس کا مفہوم اس طرح سمجھیے کہ یہ روایت سعید بن جبیر سے ایوب سختیانی اور عمروبن دینار آدمی کا اپنے مال کے بارے میں سوال اور رسول اللہﷺ کا جواب بھی ِذکر کرتے ہیں۔ ایوب یہ حصہ محفوظ نہ رکھ سکے۔ عمروبن دینار کی موجودگی میں ایوب نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت عمرو نے یہ کہا تھا کہ اس حدیث کی کچھ حصہ آپ بیان نہیں کررہے۔ اور پھر وہ حصہ بیان کیا۔ عمرو کی روایت اگلے باب میں آرہی ہے۔ (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لعان کے بعد ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے سمجھا ہے لیکن ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ نے لعان سے قبل ان سے توبہ کا کا مطالبہ کیاتھا۔ تو ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے: ایک ہلال بن امیہ کا جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں لعان سے قبل توبہ کاذکر ہے۔ اور دوسرا عویمر عجلانی کا‘ اس میں لعان کے بعد توبہ کا ذکر ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ دونو ں طرح صحیح ہے۔ مطالبہ پہلے بھی کیا جاسکتا ہے اور بعد میں بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں یہی موقف اپنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباری:۹/۴۵۸) (۲) ’’میرا مال‘‘ اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ نکاح عورت کے جرم کی وجہ سے ختم ہورہا ہے‘ لہٰذا مجھے مہر واپس ملنا چاہیے۔ آپ کے فرمان کام مطلب یہ ہے کہ تمہارے سچ یا جھوٹ کا یقین نہیں۔ ممکن ہے تو سچاہو اور ممکن ہے وہ بے گناہ ہو‘ اس لیے مہر واپس نہیں مل سکتا۔ ار تم سچے بھی تو تب بھی تم نے اس سے بہت فائدہ اٹھالیا ہے‘ لہٰذا مہر کی واپسی کا مطالبہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ (۳) عربی متن میں ’’قَاَلَ أَیُّوْبُ‘‘ کا ترجمہ سلامت کے پیش نظر نہیں کیا گیا۔ اس کا مفہوم اس طرح سمجھیے کہ یہ روایت سعید بن جبیر سے ایوب سختیانی اور عمروبن دینار آدمی کا اپنے مال کے بارے میں سوال اور رسول اللہﷺ کا جواب بھی ِذکر کرتے ہیں۔ ایوب یہ حصہ محفوظ نہ رکھ سکے۔ عمروبن دینار کی موجودگی میں ایوب نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت عمرو نے یہ کہا تھا کہ اس حدیث کی کچھ حصہ آپ بیان نہیں کررہے۔ اور پھر وہ حصہ بیان کیا۔ عمرو کی روایت اگلے باب میں آرہی ہے۔