كِتَابُ الطَّلَاقِ بَاب التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَزْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ قَالَ سَعِيدٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ فَقَالَ فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
لعان کرنے والے خاوند بیوی کے درمیان مستقل جدائی کردی جائے گی
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب نے لعان کرنے والوں میں تفریق نہ کی۔ میں نے یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے تو بن عجلان کے لعان کرنے والے خاوند بیوی میں تفریق کردی تھی۔
تشریح :
(۱) مصعب سے مراد مصعب بن زبیر ہیں جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان کے دور خلافت میں ا ن کی طرف سے عراق کے گورنر رہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کے دور میں مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت کا اعلام فرمادیا تھا۔ ۷۳ ہجری میں عبدالملک کے گورنر حجاج نے انہیں شہید کرکے ان کی خلافت ختم کردی۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) احناف کا موقف ہے کہ لعان سے تفریق واقع نہیںہوتی‘ قاضی تفریق کرے تو جب جدائی واقع ہوگی‘ پھر اس جدائی میں بھی ان کا اختلاف ہے۔ ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ طلاق بائنہ ہوگی اور خاوند بعد ازاں اپنے آپ کو جھٹلا دے‘ یعنی الزام واپس لے لے تو دونوں میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے جبکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس تفریق سے وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے۔ صحیح موقف جمہور (مالک، شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ ) کا ہے کہ محض لعان ہی سے جدائی واقع ہوجائے گی‘ قاضی کی تفریق کی ضرورت ہے نہ طلاق ہی کی۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے پر ابدی طور پر حرام ہیں‘ آپس میں ان کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا‘ چاہے خاوند اپنے موقف سے پھر بھی جائے کیونکہ قسم جب واقع ہوجائے اور اس کے نتیجے میں احکام لاگو ہوجائیںا ور فیصلہ ہوجائے تو وہ قسم واپس نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح لعان بھی ختم نہیں ہوتا‘ لیکن اس صورت میں خاوند پر حد قذف ضرور لگے گی کیونکہ اس نے صرف تہمت ہی نہیں لگائی بلکہ لعان کرکے اس سرعام ذلیل بھی کیا‘ لہٰذا اور کچھ نہیں تو کم ازکم حد قذف ضرور لگے گی۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ، شرح سنن النسائی: ۲۹/۱۴۸، ۱۴۹‘ و۱۵۲، ۱۵۳‘ وفتح الباری: ۹/۴۵۹،۴۶۰‘ والمغنی:۱۱/۱۵۰‘ طبعۃ دار عالم الکتب)
(۱) مصعب سے مراد مصعب بن زبیر ہیں جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان کے دور خلافت میں ا ن کی طرف سے عراق کے گورنر رہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کے دور میں مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت کا اعلام فرمادیا تھا۔ ۷۳ ہجری میں عبدالملک کے گورنر حجاج نے انہیں شہید کرکے ان کی خلافت ختم کردی۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (۲) احناف کا موقف ہے کہ لعان سے تفریق واقع نہیںہوتی‘ قاضی تفریق کرے تو جب جدائی واقع ہوگی‘ پھر اس جدائی میں بھی ان کا اختلاف ہے۔ ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ طلاق بائنہ ہوگی اور خاوند بعد ازاں اپنے آپ کو جھٹلا دے‘ یعنی الزام واپس لے لے تو دونوں میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے جبکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس تفریق سے وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے۔ صحیح موقف جمہور (مالک، شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ ) کا ہے کہ محض لعان ہی سے جدائی واقع ہوجائے گی‘ قاضی کی تفریق کی ضرورت ہے نہ طلاق ہی کی۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے پر ابدی طور پر حرام ہیں‘ آپس میں ان کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا‘ چاہے خاوند اپنے موقف سے پھر بھی جائے کیونکہ قسم جب واقع ہوجائے اور اس کے نتیجے میں احکام لاگو ہوجائیںا ور فیصلہ ہوجائے تو وہ قسم واپس نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح لعان بھی ختم نہیں ہوتا‘ لیکن اس صورت میں خاوند پر حد قذف ضرور لگے گی کیونکہ اس نے صرف تہمت ہی نہیں لگائی بلکہ لعان کرکے اس سرعام ذلیل بھی کیا‘ لہٰذا اور کچھ نہیں تو کم ازکم حد قذف ضرور لگے گی۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ، شرح سنن النسائی: ۲۹/۱۴۸، ۱۴۹‘ و۱۵۲، ۱۵۳‘ وفتح الباری: ۹/۴۵۹،۴۶۰‘ والمغنی:۱۱/۱۵۰‘ طبعۃ دار عالم الکتب)